صرف گولی مارنے کی اجازت ہے! مقتل کو جاتی بلوچستان کی بہادر لڑکی کی قتل سے پہلے آخری للکار نے پوری قوم کو جھنجھوڑ دیا

مقبول خبریں

کالمز

Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟
zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

The Last Cry of a Brave Baloch Girl Shakes the Nation
ONLINE

بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے نواحی علاقے سنجیدی ڈیگار کی پہاڑیوں میں بننے والی ایک ویڈیو نے سوشل میڈیا، انسانی ضمیر اور ریاستی اداروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

اس ویڈیو میں ایک نوجوان لڑکی بانو بی بی اپنی موت سے چند لمحے قبل ایک ایسا جملہ کہتی ہے جو غیرت کے نام پر قتل، ونی، کاروکاری اور سرداری نظام جیسے فرسودہ ظلم کے خلاف ناقابلِ فراموش اعلان بن چکا ہے کہ صرف گولی مارنے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

پولیس رپورٹ کے مطابق یہ اندوہناک واقعہ عیدالاضحی سے تین دن قبل پیش آیا جب کاروکاری کے الزام میں بانو بی بی اور احسان اللہ نامی نوجوان کو مقامی سردار کے سامنے فیصلے کے لیے لایا گیا۔ ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ فیصلے کا اعلان ہوتے ہی انہیں تین گاڑیوں میں لایا گیا اور ویران پہاڑی میدان میں اتارا گیا۔

چند لمحوں بعد جب خاتون کو نیچے اتارا گیا تو وہ مکمل ہوش و حواس میں، کسی خوف کے بغیر صاف الفاظ میں کہتی ہے کہ صرف گولی کی اجازت ہے!۔

یہ الفاظ سن کر وہاں موجود مسلح افراد کہتے ہیں کہ ہاں، صرف گولی کی اجازت ہے۔ پھر کوئی کہتا ہے، قرآن مجید اس کے ہاتھ سے لے لو ۔ اس لمحے سب خاموش ہو جاتے ہیں۔ پھر چند فائر کی آواز آتی ہے، اور پھر ایک خوفناک ہدایت: اس کو مار دو!

گولیاں چلتی ہیں، شاید پہلے احسان اللہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اور پھر بانو بی بی کو۔ کچھ لمحوں بعد ایک شخص دوبارہ اس پر گولیاں برساتا ہے، جیسے موت کی تصدیق کر رہا ہو۔

ویڈیو وائرل ہوتے ہی نہ صرف عوام بلکہ حکومت بلوچستان بھی حرکت میں آئی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے فوری ایکشن لیتے ہوئے دہشتگردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کروا دی۔ اب تک 11 افراد کی گرفتاری کی تصدیق کی جا چکی ہے، جن میں سے ایک کو قاتل بھی قرار دیا گیا ہے۔ باقی ملوث افراد کی تلاش جاری ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق، یہ قتل سردار کے فیصلے پر 15 افراد نے انجام دیا۔ بانو بی بی اور احسان اللہ کو موقع پر ہی گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا اور ویڈیو کو 35 دن بعد وائرل کر کے عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ پولیس نے 302، 7 اے ٹی اے، اور دیگر سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔

Related Posts