ایرانی پارلیمان نے خواتین کیلئے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کی سزائیں سخت کر دیں

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب
The Israel-U.S. nexus for State Terrorism
اسرائیل امریکا گٹھ جوڑ: ریاستی دہشت گردی کا عالمی ایجنڈا
zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایرانی پارلیمنٹ نے لباس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے لیے سزاؤں کو مزید سخت کرنے کا بل منظور کر لیا۔

حکومت نے خواتین کو سر ڈھانپنے اور مہذب لباس پہننے کی تاکید کی ہے، ورنہ بل کے تحت انہیں پندرہ سال تک کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے بل کو ابھی بھی گارڈین کونسل سے منظوری درکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

سعودی عرب حوثیوں کے ساتھ امن عمل کیلئے پر عزم، یمن میں امن کا امکان روشن

بل کے مطابق ایران میں حجاب کی خلاف ورزی کی مرتکب پائی گئی خواتین کے خلاف مستقبل میں اور بھی سخت سزائیں اور جرمانے لاگو کیے جائیں گے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق ایرانی اراکین پارلیمنٹ نےیہ بل آزمائشی بنیادوں پر تین سال کے لیے نافذ کرنے کی منظوری دی ہے۔

اسلامی لباس کے ضابطوں سے متعلق اصلاحات کے اس تازہ ترین ورژن میں لباس سے متعلق شرائط کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔

ان قانونی اصلاحات میں اسلامی لباس کی خلاف ورزی کی انتہائی صورتوں میں 15 سال تک قید اور 5000 یورو سے زیادہ جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی خواتین کو ملک بدر بھی کیا جا سکتا ہے۔

لباس کے مقرر کردہ معیار کی خلاف ورزی کی صورت میں مشہور شخصیات کو خاص طور پر سخت سزا دی جائے گی۔

اس حوالے سے ان پر 15 سال تک کی پیشہ ورانہ پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ عدلیہ ان مشہور شخصیات کے اثاثوں کا 10واں حصہ بھی ضبط کر سکتی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس مہسا امینی نامی ایک کرد خاتون کی حجاب کی مبینہ خلاف ورزی پر گرفتاری اور پھر ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ان ہلاکت کے بعد ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔

شوبز سے تعلق رکھنے والی بہت سی نامور ملکی شخصیات نے ان مظاہرین سے اظہار یکجہتی کیا تھا۔

حکومت نے اس بل کو اپنے مقررہ وقت سے ایک ماہ قبل ہی پارلیمنٹ میں پیش کر دیا۔ ساتھ ہی ایک سیاسی چال کے طور پر پارلیمنٹ کی بھرپور موجودگی میں ووٹنگ کے بجائے ایک کمیشن نے ان اصلاحات کی منظوری دی۔

اب ان مجوزہ اصلاحات کو حتمی منظوری کے لیے علماء پر مشتمل گارڈین کونسل کے نگران ادارے میں پیش کیا جائے گا۔

اس پیش رفت کو اسلامی جمہوریہ کے خلاف خواتین کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں پر علماء اور سیاسی قیادت کا ردعمل سمجھا جا رہا ہے۔

ان مظاہروں کے بعد ملک میں روزمرہ زندگی لوٹ آئی ہے تاہم بڑے شہروں میں بے شمار خواتین ہیڈ اسکارف کئی مخالفت کرتی ہیں۔

Related Posts