64 برس تک مسجد اقصیٰ میں پہرہ دینے والے خلافت عثمانیہ کے آخری سپاہی کی ایمان افروز داستان

کالمز

Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟
zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟
مسجد اقصیٰ کا آخری عثمانی پہرے دار
مسجد اقصیٰ کا آخری عثمانی پہرے دار حسن، فوٹو عالمی میڈیا

خلافت عثمانیہ کے ایک سپاہی کی جانب سے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی طویل پہرہ داری اور مسجد اقصیٰ کے ساتھ عقیدت اور وفاداری کے ایمان افروز واقعے نے ہر شخص کو اشکبار کردیا، جس کے مطابق ترک فوجی نے مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے 64 برس تک ڈیوٹی سرانجام دی، حتیٰ کہ اسی مقام پر وفات پا گیا۔

مسجد اقصیٰ کے ساتھ عقیدت، وفاداری اور اپنی فوجی ڈیوٹی کے ساتھ کمٹمنٹ کا یہ دلگداز واقعہ حال ہی میں معروف دانشور، اینکر پرسن اور کالم نگار آصف محمود نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے۔

آصف محمود کے بقول  1917 میں برطانیہ اور عثمانی سلطنت کے درمیان معاہدے کے تحت ترک افواج کو یروشلم سے انخلا کا حکم دیا گیا۔ ترک کمانڈر مصطفیٰ پاشا نے اپنے ایک نوجوان محافظ حسن کو شہر میں روک کر مسجد اقصیٰ کی نگہبانی کی ذمہ داری سونپی اور خلافت کا نشان بردار خنجر اس کے حوالے کیا، یہیں سے عزم و ہمت اور عشق و وفا کی داستان شروع ہوئی جس پر دیومالائی قصوں کا گمان ہوتا ہے۔

وقائع کے مطابق اپنے کمانڈر کا حکم پاکر ترک سپاہی حسن قبلہ اول کے حرم شریف میں اپنی جگہ موجود رہا اور اس کے بعد سیاسی تبدیلیوں، جنگوں اور اسرائیلی قبضے کے باوجود اس نے مقام نہیں چھوڑا۔ وقت کے ساتھ اس کی صحت خراب ہوئی، بینائی متاثر ہوئی اور جسمانی کمزوری بڑھتی گئی، مگر اس نے حرم قدس کی حدود میں ڈیوٹی جاری رکھی۔ مقامی لوگ اُسے مجذوب سمجھتے رہے۔ اردنی وقف کے ادارے نے عمر رسیدہ سپاہی کی ضروریات کا خیال رکھا۔

1980 میں ایک ترک حکومتی وفد، جو او آئی سی اجلاس کے لیے اردن گیا تھا، یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) کے دورے پر مسجد اقصیٰ پہنچا۔ وفد کے سربراہ جلال یلماز کی نظر سپاہی کے خنجر پر پڑی جس پر خلافتِ عثمانیہ کا طغرہ نقش تھا۔ تفصیلات معلوم کرنے پر سپاہی نے اپنی کہانی سنائی اور بتایا کہ وہ کمانڈر مصطفیٰ کے حکم پر آج تک ڈیوٹی پر ہے۔

جلال یِلماز کی جانب سے وطن واپسی کی پیشکش پر سپاہی نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ جب تک خلیفہ یا اس کے کمانڈر کی جانب سے نیا حکم نہیں آتا، وہ حرم نہیں چھوڑے گا۔ وفد نے وقف انتظامیہ کو معاملے سے آگاہ کیا اور کہا کہ سپاہی کو اس کی حالت کا احساس نہ ہونے دیا جائے۔

چند ماہ بعد سپاہی فجر کے وقت سجدے میں وفات پا گیا۔ نماز کے بعد مسجد اقصیٰ کے امام نے اس کی اصل شناخت اور ذمہ داری عوام کے سامنے رکھی۔ جس پر فلسطینیوں کو اس مجذوب کی ایمان افروز داستان کا علم ہوا۔

مجذوب کی حقیقت آشکار ہونے کے بعد اس کے جنازے میں پورا فلسطین امڈ آیا۔ حرم اقصیٰ سے عہد وفا نبھانے والے اس بہادر ترک سپاہی کو اس کی تلوار کے ساتھ القدس کے باب المغاربہ کے قریب دفن کیا گیا۔

قبر پر ایک کتبہ نصب کیا گیا، جس پر لکھا تھا ایک اجنبی جو اپنے گھر میں فوت ہوا، یہ کتبہ اگرچہ وقت کے ساتھ مٹ گیا، تاہم مسجد اقصیٰ کے در و دیوار جانتے ہیں کہ یہاں عثمانی دور کا اس کا ایک باوفا محافظ مدفون ہے۔

Related Posts