شام کے جنوبی علاقے السویداء میں جاری خونریز تصادم پر قبائلی رہنما نے ہولناک انکشافات کرتے ہوئے کہا ہے کہ دروز مذہبی رہنما حکمت الہجری کی وفادار مسلح تنظیموں نے خواتین کی بے حرمتی، بچوں کے سر قلم کرنے اور ہزاروں قبائلی افراد کو یرغمال بنانے جیسے انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا ہے، جبکہ حکومتی افواج خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔
یہ سنگین الزامات جنوبی شام کے قبائل کے سربراہ شیخ راکان الخضیر نے الجزیرہ ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عائد کیے۔ انہوں نے کہا کہ السویداء کے حالات انتہائی تشویشناک اور انسانیت کے لیے باعثِ شرم ہیں اور اس تمام تر صورتحال کی براہِ راست ذمہ داری حکومتی اداروں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے علاقے سے اپنی افواج ہٹا کر دروز ملیشیاؤں کو کھلی چھوٹ دے دی ہے۔
شیخ راکان کے مطابق السویداء شہر میں صرف حکمت الہجری کے زیرِ اثر ملیشیائیں سرگرم ہیں اور وہی تمام تر مظالم میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب تک دو ہزار سے زائد افراد کو قید میں رکھا جا چکا ہے، جبکہ خواتین کی آبروریزی اور بچوں کے سر قلم کرنے جیسے دل دہلا دینے والے جرائم کے دستاویزی شواہد بھی موجود ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قبائل اس صورتحال میں مجبوراً دفاعی اقدامات کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے واضح کیا کہ قبائل کا مقصد صرف اپنے یرغمالیوں کی رہائی ہے، نہ کہ دروز برادری کے خلاف اجتماعی انتقام۔
شیخ راکان نے شامی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریاست اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہے تو پھر ہر فرد کو اپنی حفاظت خود کرنی پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا حالیہ معاہدہ جس کے تحت فوجی دستے السویداء سے واپس بلائے گئے، قبائل کو اعتماد میں لیے بغیر طے کیا گیا، جس سے پورا علاقہ عدم تحفظ کا شکار ہو گیا۔ انہوں نے دروز برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ باہمی اختلافات کو ختم کر کے کسی ایک متفقہ اور معتدل قیادت کے تحت متحد ہو جائیں تاکہ پرامن بقائے باہمی کا راستہ کھل سکے۔
شیخ راکان الخضیر نے آخر میں عرب دنیا اور امتِ مسلمہ سے فوری مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ السویداء میں جاری خونریزی اور مظالم کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
واضح رہے کہ راکان الخضیر کا یہ دعویٰ محض الزام نہیں، بلکہ سوشل میڈیا میں ایسی تصاویر اور ویڈیوز کی بھرمار ہے، جن میں دروز ملیشیا کے ہاتھوں مقامی عرب بدووں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سویدا سے سینکڑوں بدو خاندان جان بچانے کے لیے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ وہاں کی گلیاں اب بھی لاشوں سے اٹی پڑی ہیں۔ اس قتل عام کے بعد بدو قبائل نے بھی جنگ کا اعلان کیا ہے۔
شیخ عبد المنعم الناصيف جو شام کی قبائل و عشائر کونسل کے سربراہ ہیں، نے کھلی جنگ کا اعلان کرتے ہوئے تمام قبائل سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر السویداء پہنچ کر بدو شہریوں کے تحفظ کے لیے کردار ادا کریں، جن کے خلاف “قتل عام” کیا گیا ہے۔
ایک سیکورٹی ذریعے نے الجزیرہ کو بتایا کہ السویداء کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر وزارتِ داخلہ سے فوری مداخلت کی اپیل کی گئی ہے اور وزارت نے شہر میں امن و امان بحال کرنے کے لیے سیکورٹی فورسز کی تیاری شروع کر دی ہے۔
دوسری جانب بدو قبائل کے متحرک ہونے کے بعد اب دروز کے بھی ہوش ٹھکانے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی پشت پناہی کے زعم میں مبتلا دروز ملیشیا نے عام شہریوں کا قتل عام کیا تھا۔ جس کے ردعمل میں آس پاس کے قبائلی جنگجو اب سویدا شہر میں داخل ہوچکے ہیں۔ جس سے خوفزدہ ہو کر دروز نے اب شامی حکومت کو دہائی دینا شروع کی ہے کہ وہ مداخلت کرے۔
دروز بلوائیوں کے رہنما حکمۃ الھجری نے کہا کہ السويدا اس وقت بحران کا شکار ہے اور حکومت کو چاہیے کہ فوراً امن قائم کرنے کے لیے غیر جانبدار فورس بھیجے۔ ایک ویڈیو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ہم امن اور برداشت کے حامی ہیں اور فساد پھیلانے والے افراد پوری قوم کی نمائندگی نہیں کرتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ فرقہ واریت یا نفرت کے حق میں نہیں ہیں۔ اس کے جواب میں شامی وزارت داخلہ نے سویدا کی طرف فورسز کو روانہ کرنے کی تیاریاں شروع کی ہیں۔