افتخار شالوانی کو ایڈمنسٹریٹرکراچی تعینات کرنے پر عوام کا ردِ عمل سامنے آگیا

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سابق کمشنر افتخار شالوانی کو ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر کراچی کا ردِ عمل سامنے آگیا
سابق کمشنر افتخار شالوانی کو ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر کراچی کا ردِ عمل سامنے آگیا

سندھ حکومت کی طرف سے سابق کمشنر کراچی افتخار شالوانی کو شہر کا ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر شہرِ قائد کے عوام کا ردِ عمل سامنے آگیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق  عوام کا کہنا ہے کہ کمشنر کراچی کی حیثیت سے افتخار شالوانی ناکام ترین رہے۔ کراچی کی ڈھائی کروڑ آبادی میں مختلف علاقوں میں کیے گئے 100 کے لگ بھگ افراد سے سروے میں شہریوں نے افتخار شالوانی کے خلاف شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ 

کراچی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ جو افسر اپنی ہی مقرر کردہ سرکاری دودھ کی قیمتوں پر دودھ فروخت نہیں کروا سکا اور 2 سال تک دودھ اضافی قیمت پر فروخت کرواکر سرکاری رِٹ ختم کرادی ایسے افسر کو ایڈمنسٹریٹر کراچی لگانا بلی کو دودھ کی رکھوالی پر مقرر کرنے کے مترادف ہے۔

شہریوں کی غالب اکثریت کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ وہ کراچی کے عوام کو دُکھ دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گی۔ شہر میں اشیائے  خوردو نوش کی قیمتیں آسمان تک پہنچانے میں شہریوں کے مطابق سابق کمشنر افتخار شالوانی کا ہاتھ ہے  جو  قیمتیں کنٹرول کرنے کی اہلیت سے عاری تھے۔

عوام نے افتخار شالوانی پر الزام لگایا کہ ان کے ماتحت ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنرز، ڈیری فارمرز، تھوک اور کریانہ فروشوں، سبزی منڈی کے تاجروں اور گوشت فروخت کرنے والوں سے مبینہ طور پر ماہانہ لاکھوں روپے نذرانہ وصول کیا جاتا تھا جس کے نتیجے میں  دودھ کی من مانی قیمتوں پر فروخت کا کھلا لائسنس دے دیا گیا ۔

اب تک دودھ کے سرکاری نرخ 94 روپے فی لیٹر مقرر ہیں جبکہ 2 سال تک دودھ 110 روپے لیٹر فروخت ہوا اور تقریباً 8 ماہ سے ڈیری فارمرز کی من مانیوں سے دودھ 120 روپے فی لیٹر کھلے عام فروخت کیا جا رہا ہے۔ کمشنر آفس میں دودھ فروشوں کے  نرخ کمشنر کراچی افتخار شالوانی نے ہی مقرر کیے تھے۔

چند ماہ کے بعد کراچی انتظامیہ کی ملی بھگت سے دودھ 110 روپے فی لیٹر فروخت ہونے پر نمائشی ایکشن کیا گیا اور گلی محلوں کے چھوٹے تاجروں پر اپنی کار کردگی دکھانے کے لیے معمولی جرمانے کیے گئے۔ کچھ روز بعد ضلعی انتظامیہ نے ساز باز کر کے خاموشی اختیار کر لی۔

جب دودھ مزید 10 روپے مہنگا ہو کر  120 روپے فی لیٹر فروخت ہوا تب بھی ایسا ہی ہوا۔ یہی صورتحال مرغی کے گوشت (چکن ) کی رہی ، جو سرکاری نرخ 214 روپے کے بجائے رمضان المبارک میں 380 روپے سے لے کر 480 روپے فی کلو فروخت ہوتا رہا۔

عیدالاضحیٰ کے قریب گوشت 300 روپے فی کلو فروخت ہوا جس پر افتخار شالوانی یہ تمام قیمتیں کنٹرول کرنے میں ناکام رہے۔ شہریوں نے سوال کیا ہے کہ کیا وجہ ہے جس آفیسر پر ناکامی اور کرپشن کے سنگین الزامات عائد کیے گئے، سندھ حکومت نے اسے ایڈمنسٹریٹر کراچی بنا دیا۔

ڈپٹی کمشنر کی بطور ایڈمنسٹریٹرز ڈی ایم سیز میں تعیناتی کو بھی شہریوں نے کراچی دشمنی قرار دیا ہے کیونکہ عوام کے مطابق مہنگائی کا عذاب مسلط کرنے میں ضلعی انتظامیہ کا ہاتھ ملوث رہا ہے جس کی لگام افتخار شالوانی کے ہاتھ میں تھی جو کمشنر کراچی کے عہدے پر فائز تھے۔

  یہ بھی پڑھیں:  گورنر سندھ اور ایڈمنسٹریٹر کراچی کی ملاقات 

Related Posts