اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سینیٹ الیکشن سے متعلق صدارتی آرڈینس اگر عدالتی فیصلے سے مشروط نہ ہوتا تو کالعدم قرار دے دیتے۔
سپریم کورٹ میں سینٹ انتحابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے نقطہ اٹھاتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ حکومت نے اوپن بیلٹ کے لیے آرڈیننس جاری کردیا اورعدالتی کاروائی کا ذرا بھی احترام نہیں کیا۔ آج تک ایسی قانون سازی نہیں ہوئی۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے اپنا فیصلہ کرلیا۔
اس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ آرڈیننس تو عدالتی رائے سے مشروط ہے، حکومت نے آرڈیننس قیاس آرائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے جاری کیا، نہیں معلوم آرڈیننس کیسے جاری ہوا لیکن آرڈیننس تو جاری ہو چکا ہے، حکومت کوآرڈیننس جاری کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، عدالتی رائے حکومتی مؤقف سے مختلف ہوئی تو ریفرنس ختم ہو جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرڈیننس کے حوالے سے دی گئی درخواست کو بھی کیس کے ساتھ سنیں گے۔ عدالت نے صدارتی آرڈیننس کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔
دوران سماعت پیپلزپارٹی کے رہنما رضا ربانی نے آزادانہ حیثیت سے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ آرڈیننس جاری کر کے عجیب و غریب حالات پیدا کیے گیے، آرڈیننس میں لکھا ہے یہ فوری نافذ العملُ ہو گا اور اگر عدالت کی رائے حکومت سے مختلف ہوتی ہے تو آرڈیننس کا کیا ہوگا۔
جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیئے کہ آرڈیننس میں یہ بھی لکھا ہے کہ عملدرآمد عدالتی رائے سے مشروط ہو گا، آرڈیننس کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، آرڈیننس کا عدالتی کارروائی پر کوئی فرق نہیں پڑےگا۔ عدالت نے صدارتی آرڈیننس پر 184/3 کے تحت نوٹس جاری کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آرڈیننس اگر مشروط نہ ہوتا تو کالعدم قرار دے دیتے، آرڈیننس کے تحت بھی ووٹنگ خفیہ ہی ہو گی۔ بعد میں درخواست دینے پر ووٹ دیکھا جاسکے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ کھلے دل سے تسلیم کریں گے،شاہ محمود قریشی