ملک میں چینی کی قیمتوں میں جاری اضافے کے دوران ایک حیران کن انکشاف سامنے آیا ہے کہ چینی کے نرخوں میں حالیہ اتار چڑھاؤ سے شوگر مل مالکان نے تقریباً 300 ارب روپے کا غیر معمولی منافع کمایا۔
جنید اکبر کی زیرصدارت قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے انکشاف کیا کہ چینی کی قیمتوں میں حالیہ تبدیلیوں کے باعث مجموعی طور پر 300 ارب روپے کمائے گئے۔
رکنِ قومی اسمبلی ریاض فتیانہ نے الزام لگایا کہ قوم سے 287 ارب روپے کا دھوکہ کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کرپشن کو بے نقاب کرنے والے اہم سرکاری افسر اور پنجاب کے کین کمشنر کو اس کے بعد نظرانداز کر دیا گیا۔
اجلاس کے دوران ثناءاللہ مستی خیل نے سوال اٹھایا کہ ایف بی آر کی جانب سے چینی کی درآمد سے متعلق جاری کیے گئے ایس آر او (خصوصی حکم نامے) سے آخر فائدہ کس کو پہنچا؟ انہوں نے کہا کہ اگر چینی کی قیمت میں صرف ایک روپیہ اضافہ کیا جائے تو مارکیٹ سے 44 ارب روپے کمائے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے اس تمام صورتحال کو بلّی اور چوہے کا کھیل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تماشہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ اُن کا کہنا تھا: ”خدا کے لیے ہمیں معاف کریں۔“معروف تجزیہ کار اور رکن پارلیمنٹ معین عامر پیرزادہ نے بحران کی جڑ شوگر ایڈوائزری بورڈ کو قرار دیا۔
اجلاس میں حکومت سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کے درمیان چینی ملوں کی ملکیت پر شدید سیاسی محاذ آرائی بھی دیکھنے کو ملی، جہاں تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے نمائندگان ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے نظر آئے۔
تحریک انصاف کے رکن عامر ڈوگر نے دعویٰ کیا کہ صدر آصف علی زرداری ملک میں چینی ملوں کے سب سے بڑے مالک ہیں۔
اس پر پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری اور بلال احمد خان نے ان پر پوائنٹ اسکورنگ کا الزام لگایا تاہم پی ٹی آئی کے رکن نے اپنے بیان سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔