سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ججوں نے ریاستی اداروں کی سیاسی معاملات میں مداخلت پر سخت تنقید کرتے ہوئے موجودہ صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جمعہ کے روز ایک قتل کے ملزم کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران سخت ریمارکس دیے گئے۔یہ کیس 2017 سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، ایک سابق وزیر اعظم کے قتل سے متعلق ہے۔ ملزم اسحاق ضمانت حاصل کرنے کے بعد تاحال مفرور ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے ریاست کو “سیاسی انجینئرنگ” میں ملوث ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ریاست اپنے آئینی فرائض کی بجائے سیاسی معاملات میں الجھی ہوئی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کیس میں سست پیش رفت پر بات کرتے ہوئے کہا، “جب ریاست حکومتیں گرانے اور بنانے میں مصروف ہے، تمام ادارے سیاسی مخالفین کا پیچھا کر رہے ہیں۔ اگر آئین پر عمل کیا جاتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔”
مولانا فضل الرحمن مختصر وقت کیلئے وزیر اعظم بننے والے ہیں، سینئر سیاستدان کا دعویٰ
جسٹس جمال مندوخیل نے ریاستی اداروں کی کارکردگی پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور تین وزرائے اعظم کے قتل اور بلوچستان میں ایک سینئر جج کے قتل کے بعد کارروائی نہ ہونے پر سوال اٹھایا۔
انہوں نے اداروں کی “غیر سنجیدگی” کو تنقید کا نشانہ بنایا اور سندھ و پنجاب میں پولیس پراسیکیوشن کے ناقص نظام کی نشاندہی کی۔ججوں نے اداروں پر عوامی اعتماد کی کمی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام کی توقع ہے کہ سپریم کورٹ ملک کے تمام مسائل حل کرے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ذوالفقار علی بھٹو کے کیس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس جرم کو تسلیم کرنے میں 40 سال لگے، جو کہ سب سے بڑی ناانصافیوں میں سے ایک ہے۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے ملک میں عدم استحکام پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسا ملک جہاں وزرائے اعظم دفتر سے جیل جا سکتے ہیں، وہاں عام شہری کے مقدر کا کیا ہوگا؟انہوں نے سیاسی رہنماؤں کے دور اقتدار کے غیر یقینی حالات کی طرف بھی اشارہ کیا۔سپریم کورٹ نے پولیس کو ہدایت کی کہ قتل کے ملزم اسحاق کو گرفتار کر کے جیل حکام کے حوالے کیا جائے۔