سندھ پولیس کے اہلکار کو بچے کے علاج کے لیے چھٹی نہ ملی اور لاڑکانہ تبادلہ کردیا گیا،چھٹی لینے اور تبادلہ رکوانے کے لیے افسران کو رشوت دینے کیلئے اہلکار پچاس ہزارمیں ایک بیٹا بیچنے کی آوازیں لگاتا رہا۔
جی ڈی اے کی رکن سندھ اسمبلی نصرت سحرعباسی کے مطابق سندھ میں سالوں سے حکمرانی کرنے والے حکمران اور سندھ پولیس کا معیار کبھی صحیح نہیں ہوسکتا، ان کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس کا جوان پہلے اپنے بچے کے علاج کےلیے پریشان تھا پھر اپنے سسٹم کے ہاتھوں مزید مشکل میں پڑگیا۔
نصرت سحرعباسی کی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کے مطابق گھوٹکی کے پولیس اہلکار کو بچے کے علاج کے لیے چھٹی نہ ملی اور لاڑکانہ تبادلہ کردیا گیا، چھٹی لینے اور تبادلہ رکوانے کے لیے افسران کو پچاس ہزارروپے رشوت دینے کیلئے اہلکار پچاس ہزارمیں ایک بیٹا بیچنے کی آوازیں لگاتا رہا۔
گھوٹکی کے پولیس اہلکار کو بچے کے علاج کے لیے چھٹی نہ ملی اور لاڑکانہ تبادلہ کردیا گیا، چھٹی لینے اور تبادلہ رکوانے کے لیے افسران کو پچاس ھزار روپے رشوت دینی پڑے گی، اہلکار پچاس ھزار میں ایک بیٹا بیچنے کی آوازیں لگاتا رہا۔ ہائے انسانیت کھاں ہے????????#قلمکار @_NadeemZaidi@ArifRetd pic.twitter.com/JMRU9yRCqz
— Mehdi Hassan (@MehdiHassan8019) November 12, 2021
ہائے رے انسانیت؟؟؟؟؟
گھوٹکی کے پولیس اہلکار کو بچے کے علاج کے لیے چھٹی نہ ملی اور لاڑکانہ تبادلہ کردیا گیا، چھٹی لینے اور تبادلہ رکوانے کے لیے افسران کو پچاس ھزار روپے رشوت دینی پڑے گی، اہلکار پچاس ھزار میں ایک بیٹا بیچنے کی آوازیں لگاتا رہا۔ ہائے انسانیت کہاں ہے???????? pic.twitter.com/AJQSvuhfhT
— Amber M Chaudhary (@AmberMaajid) November 12, 2021
عوام جان لیں۔
یہ دو خاندان اور انکی اولاد اور فضلہ رامائن داس آپ کی اگلی نسلوں کو بھی غلام بنانا چاھتے ہیں۔
یقین نہیں آتا تو گھوٹکی سندھ کے اس پولیس اھلکار کو دیکھ لیں۔
اب آپ لوگوں کی مرضی۔
اور ھاں وہ عدالتیں تو مر گئ ہیں pic.twitter.com/RU82QvEoBi— Aaryaan Saifullah (@PTIworldwide) November 12, 2021
*ڈسٹرکٹ جیل گھوٹکی سندھ کا یہ پولیس اہلکار نثار لاشاری اپنے بیٹے کو پچاس ہزار روپے میں بیچنے پر مجبور ۔۔۔۔۔!!!!*
اس پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ اس کے ایک بیٹے گمبٹ ہسپتال میں لیور کا آپریشن تھا اور یہ چھٹی لینے کیلٸے جب جیل کےمنشی کے پاس آیا تو اس نے 7000 رشوت مانگے۔
???????????? pic.twitter.com/gotHS6RgSo— Furqan Mehmood Rizvi (@FurqanMehmoodR1) November 11, 2021