ثنا یوسف کے سفاکانہ قتل پر شوبز اسٹارز کا انصاف کا مطالبہ

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

(فوٹو؛ فائل)

اسلام آباد میں 17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے سفاکانہ قتل نے شوبز انڈسٹری سمیت پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ فنکاروں اور اداکاراؤں نے گہرے دکھ، غم اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے مجرم کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

پولیس کے مطابق، ثنا یوسف کو اس کے گھر میں فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔ ایف آئی آر کے مطابق، ملزم عمر حیات ثنا کا تعاقب کرتا رہا اور بار بار دوستی کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اس نے یہ سفاک قدم اٹھایا۔ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے عمر حیات کو فیصل آباد سے گرفتار کر لیا۔

اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ عمر حیات خود بھی ٹک ٹاکر ہے اور ثنا سے دوستی کا خواہاں تھا، مگر انکار برداشت نہ کر سکا۔

اداکارہ ماورا حسین نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب ہمارے ڈرامے اور فلمیں زبردستی کے رشتوں اور جنونی محبت کو رومانوی انداز میں دکھاتی ہیں، تو ہم نوجوان ذہنوں کو زہر دے رہے ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ قتل صرف ایک شخص کا جرم نہیں، بلکہ اس ذہنیت کا نتیجہ ہے جو ہم برسوں سے پرورش دے رہے ہیں۔

اداکارہ مایا علی نے کہا کہ دل ٹوٹ گیا ہے، صرف ‘نہ’ کہنے کی جرات رکھنے والی ایک معصوم لڑکی کو مار دیا گیا۔ یہ کون سی عزت ہے جو جان لینے کو حق سمجھتی ہے؟

ماہرہ خان نے سابقہ ٹوئٹر (X) پر اپنے پیغام میں کہا کہ اگر قاتل کو سزا نہ دی گئی تو یہ واقعات کبھی نہیں رکیں گے۔ اس کا چہرہ دکھاؤ، اور اسے مثال بنا دو۔

درِفشاں سلیم نے کہا کہ جب ایک عورت ‘نہ’ کہتی ہے تو کئی مرد بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ ان کی محبت غصے میں، اور عزت ملکیت میں بدل جاتی ہے۔”

سجل علی نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنی رائے دی، انہوں نے کہا کہ صرف ‘نہ’ کہنے پر ایک لڑکی کو قتل کر دیا گیا۔ ہم کس بے حس معاشرے میں رہ رہے ہیں؟ دوسروں کی حدود اور احساسات کا احترام سیکھنا ہوگا۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Pakistani Cinema (@pakistanicinemaa)

فنکاروں کی یہ آوازیں معاشرے میں بیداری پیدا کرنے اور خواتین کے تحفظ کے لیے ایک اہم پیغام ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نظامِ انصاف کتنی جلدی اور مؤثر طریقے سے حرکت میں آتا ہے۔

Related Posts