شوکت ترین کے نیشنل بینک میں غیر قانونی تقرریوں کی تحقیقات پراثرانداز ہونے کاانکشاف

مقبول خبریں

کالمز

zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟
Eilat Port Remains Permanently Shut After 19-Month Suspension
انیس (19) ماہ سے معطل دجالی بندرگاہ ایلات کی مستقل بندش
zia-1-1-1
دُروز: عہدِ ولیِ زمان پر ایمان رکھنے والا پراسرار ترین مذہب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Shaukat Tareen influence in the investigation of illegal appointments in the National Bank revealed

کراچی : نیشنل بینک آف پاکستان کےچیئرمین، صدر اور دیگر اعلیٰ حکام کے خلاف غیر قانونی تقرریوں کی تحقیقات کرنے والے ادارے ایف آئی اے پر وفاقی وزیر خزانہ کے مبینہ دباؤ کا انکشاف ہوا ہے۔

انتہائی با خبر ذرائع نے یہ انکشاف کیا ہے کہ وزیر خزانہ براہ راست ایف آئی اے پر دباؤڈال کر غیر قانونی طور پرتحقیقات پر اثر انداز ہو رہے ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ این بی پی کے عہدیداران اور حکومتی اعلیٰ شخصیات میں پرانی جان پہچان اور دوستیاں ہیں جس کے تحت مبینہ طور پر منیر کمال اسد عمر کے بھائی نیشنل بینک میں اپنے بھائی کے منتخب شدہ صدر کی مدد کر رہے ہیں ۔

شوکت ترین اور اسد عمر کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھے نہیں۔ پرانے ساتھی ہونے کی وجہ سے شوکت ترین، منیر کمال، زبیر سومرو اور عارف عثمانی بینکنگ کی ایک ہی تربیت رکھتے ہیں۔

شوکت ترین اور عارف عثمانی سٹی بینک فار ایسٹ ایشیا خصوصا ہانگ کانگ، سنگاپور، تھائی لینڈ میں اکٹھے تھے،ایک اور حیران کن مماثلت شوکت ترین کا حبیب بینک نیویارک اور عارف عثمانی کا نائیجیریا میں منی لانڈرنگ میں ملوث ہونا ہے۔

ایف آئی اے نے این بی پی میں سینئر سطح پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور غیر قانونی تقرریوں کے الزام میں انکوائری نمبر 81/2021 درج کی ہے۔

یہ الزامات اسٹاف سروس رولز، پروڈینشل ریگولیشنز کی خلاف ورزی، اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی خلاف ورزی اور پالیسیوں میں نرمی کے ساتھ ساتھ عوامی اشتہارات میں دیئے گئے معیار کی خلاف ورزیوں پر مشتمل تھے۔

ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹس کے مطابق بینک کے اعلیٰ حکام کو26 اپریل کو ذاتی طور پر پیش ہونے کے لئے بلایا گیا تھا تاہم وزیر خزانہ کی مداخلت سے اس معاملے کو کھٹائی میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔

ملتان میں پیدا ہونے والے شوکت فیاض احمد ترین نے 1975 میں سٹی بینک میں شمولیت اختیار کی اور 22 سال تک سٹی بینک والی بینکنگ سیکھی۔ وہ کنٹری ہیڈ سٹی بینک تھے جب پی ایم ایل (ن) کی حکومت نے تین سٹی بینکاروں کو پاکستان کے بڑے بینکوں کا کنٹرول سنبھالنے کی دعوت دی۔

شوکت ترئب کو ایچ بی ایل، زبیر سومرو کو یو بی ایل کا صدر اور میاں محمد سومرو کو این بی پی کا سربراہ بنایا گیا۔ منیر کمال نے 1979 میں سٹی بینک میں کیریئر کا آغاز بھی تقریباً اسی وقت کیا تھا جب عارف عثمانی سٹی بینک میں شامل ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں:صنعتکار برادری کا’’ بینظیر مزدور کارڈ‘‘ کے اجراء کا خیرمقدم

یہ چاروں میوزیکل چیئرکھیل رہے ہیں، جیسے عارف عثمانی نے زبیر سومروسے کنٹری ہیڈ سٹی پاکستان کا عہدہ سنبھالا تھا۔

منیرکمال، زبیرسومرو اور شوکت ترین نے بھی پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں باری باری کام کیا تھا۔ کم ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کی تشکیل میں سٹی گروپ کی شمولیت اور منی سپلائی کے غیر ترقی یافتہ اعلیٰ دفاتر میں اپنے تربیت یافتہ بینکاروں کی تعیناتی کے ذریعے حکومتی سطح پر مداخلت کے بارے میں کہانیاں اکثر بہت سے جریدوں میں شائع ہوتی ہیں۔

شوکت ترین کے پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی قریبی خاندانی روابط ہیں۔ ان کی بیٹی کی شادی انور مجید کے بیٹے سے ہوئی ہے۔

شوکت ترین، پیرگھیب اور ساہیوال رینٹل پاور کے آئی پی پیز میں بدعنوانی کے حوالے سے دائر نیب ریفرنس میں ملوث ہیں۔

شوکت ترین کی بینکنگ ہسٹری اس وقت متنازع ہوئی، جب حبیب بینک میں انہوں نے سیاستدانوں کو 22 ارب کے قرضے دیئے جو کہ سب کے سب ڈیفالٹ کر گئے۔

Related Posts