اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سائفر معاملے کی تحقیقات کے لئے دائر تینوں اپیلیں مسترد کردیں۔
سائفر تحقیقات کے لئے اپیلیں ایڈووکیٹ ذوالفقاربھٹہ، سید طارق بدر اور نعیم الحسن نے دائر کی تھی، رجسٹرار سپریم کورٹ نے اپیلیں اعتراض عائد کرتے ہوئے واپس کردی تھیں، درخواست گزاروں نے رجسٹرار آفس کے اعترضات کے خلاف چیمبر اپیلیں دائر کی تھی۔
سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواستوں پر عائد اعتراضات کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا فارن افیئرز ڈیل کرنا عدالت کا کام ہے؟ جس وقت ساٸفر سامنے آیا اُس وقت وزیراعظم کون تھا؟ جواب میں عدالت کو بتایا گیا کہ اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے، عمران خان نے بطور وزیر اعظم سائفر جلسے میں لہرایا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ بطوروزیراعظم عمران خان کے پاس تحقیقات کروانے کے تمام اختیارات تھے، کیا بطور وزیراعظم عمران خان نے معاملے پر تحقیقات کا کوئی فیصلہ کیا؟ وزیراعظم کے ماتحت تمام اتھارٹیز ہوتی ہیں، اس سائفر کے معاملے میں عدالت کیا کرے؟۔
جیل بھرو تحریک کی شروعات عمران خان کی گرفتاری سے ہونی چاہیے، مریم اورنگزیب
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سائفر کی تحقیقات بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سائفر سے آپ کی اور میری زندگیوں پر کیا اثر پڑا؟ اس کیس میں بنیادی حقوق کا کوئی معاملہ نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ حکومت اگر چاہے تو دنیا بھر کے ساٸفر پبلک کرسکتی ہے، کوٸی دوسرا ایسا کرے گا تو سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔
فاضل جج صاحب نے ریمارکس دیے کہ تحقیقات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، ایگزیکٹو کے معاملات میں عدلیہ مداخلت نہیں کرسکتی، جس کا کام ہے اس کو کرنے دیا جائے۔
وکلا کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے سائفر معاملے کی تحقیقات کیلئے دائر تینوں اپیلیں مسترد کردیں۔