حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کئی شمسی توانائی کمپنیوں نے جولائی کے بعد خاص طور پر متمول خاندانوں کی طلب میں اضافے کی اطلاع دی ہے جب حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا لیکن سولر سسٹم کی تنصیب کے زیادہ اخراجات ایک مستقل چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان نے جولائی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض معاہدے کے تحت طے شدہ اصلاحات کے حصے کے طور پر بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جس کا مقصد بجلی اور گیس کے شعبوں میں غیر پائیدار عوامی قرضوں کو کم کرنا تھا۔
بیل آؤٹ سے منسلک اصلاحات بشمول درآمدی پابندیوں میں نرمی اور سبسڈیز کو ہٹانے کے مطالبے نے پہلے ہی سالانہ افراطِ زر میں اضافہ کر دیا ہے جو مئی میں ریکارڈ 38.0 فیصد تک بڑھ گئی۔ شرحِ سود میں بھی اضافہ ہوا اور روپیہ کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ گذشتہ ماہ کرنسی 6.2 فیصد گر گئی تھی۔ جب پاکستان نے گذشتہ جمعہ کو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کا بھی اعلان کیا جو دو ہفتوں میں دوسرا بڑا اضافہ ہے تو مالی معاملات مزید خراب ہو گئے جبکہ اگست میں مہنگائی کی شرح 27.4 فیصد پر ہدف سے زیادہ رہی۔
اس مشکل وقت میں مالی استطاعت رکھنے والے کئی پاکستانی اپنے گھروں میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کا نظام لگانے کا آپشن تلاش کر رہے ہیں۔
ایک معروف شمسی توانائی کمپنی اسکائی الیکٹرک میں سیلز ڈویلپمنٹ مینیجر عمار ظہیر نے عرب نیوز کو بتایا، “گذشتہ چند مہینوں میں بجلی کے نرخوں میں تیس فیصد کے قریب تبدیلی آئی ہے اور سولر کی طلب ساٹھ سے ستر فیصد تک بڑھ گئی ہے۔”
پاکستانی شمسی نظام فراہم کرنے والی کمپنی الفا سولر کے ڈائریکٹر گلشیر خان نے کہا کہ گذشتہ دو ماہ میں ان کی کمپنی نے شمسی تنصیبات میں 30 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔
“بجلی کی اس بڑھتی ہوئی قیمت کے ساتھ… جن کے پاس سرمایہ دستیاب ہے، وہ تیزی سے سسٹم انسٹال کر رہے ہیں۔”
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی 2021 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شمسی توانائی کی پیداوار کے لیے مثالی موسمی حالات ہیں کیونکہ ملک کے بیشتر حصوں میں نو گھنٹے سے زیادہ سورج کی روشنی دستیاب ہوتی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق اگر ملک کے صرف 0.071 فیصد رقبے کو سولر فوٹو وولٹک (سولر پی وی) بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کر لیا جائے تو یہ پاکستان کی بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے کافی ہو گا۔ لیکن فی الحال پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی 39,772 میگاواٹ کی نصب شدہ صلاحیت کا صرف 5.4 فیصد حصہ قابلِ تجدید ذرائع سے آتا ہے مثلاً ہوا، شمسی اور بائیوماس۔ جبکہ حیاتیاتی ایندھن اب بھی ایندھن کے مرکب کا 63 فیصد بناتے ہیں جس کے بعد 25 فیصد حصہ ہائیڈرو پاور کا ہے۔
تو پھر پاکستان اپنی شمسی توانائی کی صلاحیت کو استعمال کرنے سے قاصر کیوں ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ تعمیراتی منظوریوں میں طریقۂ کار اور افسر شاہی کے تاخیری حربے اور قومی گرڈ کو بجلی کی فروخت کے لیے بے کشش ٹیرف کے ساتھ ساتھ سیاسی عزم کی کمی اور سرمایہ کاری میں حکومت کی ہچکچاہٹ صنعت کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔
خاندانوں کے لیے شمسی نظام کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ بلند ابتدائی سرمایہ کاری ہے جس کے لیے لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں۔
سولر سسٹم فراہم کرنے والوں کے مطابق 5 کلوواٹ سولر سسٹم جو چار افراد کے خاندان کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، پر تقریباً 1.2 ملین روپے ($4,114) کی لاگت آتی ہے جبکہ چھ افراد تک کے لیے 10 کلوواٹ کے سولر سسٹم کی قیمت 30 لاکھ روپے ($9,836) تک ہو سکتی ہے۔ بیٹریاں مہنگی ہیں اور ہر دو سال یا اس کے بعد انہیں تبدیل کرنے کے لیے اضافی 300,000 روپے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف سولر پینلز کی عام طور پر 10-15 سال کی وارنٹی اور 25 سال کی زندگی ہوتی ہے۔
تاہم لاگت کی طویل مدتی بچت نیٹ میٹرنگ میں مضمر ہے جو ایک بلنگ میکانزم ہے جو شمسی توانائی نظام کے مالکان کو گرڈ میں شامل ہونے والی بجلی کا کریڈٹ دیتا ہے۔ متبادل توانائی ترقیاتی بورڈ (اے ای ڈی بی) کے ساتھ رجسٹرڈ شمسی توانائی کمپنی چھت یا کسی اور دھوپ والی جگہ پر شمسی پینل نصب کرے گی اور اپنے صارف کی جانب سے نیٹ میٹرنگ کا عمل ترتیب دے گی۔ اگر سولر پینل استعمال شدہ بجلی سے زیادہ بجلی پیدا کرتے ہیں تو اضافی بجلی نیشنل گرڈ کو فروخت کر دی جاتی ہے۔
جنوبی ایشیائی ملک میں توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع کی ترقی کی نگرانی کرنے والے اے ای ڈی بی کے مطابق پاکستان میں کل 767 میگاواٹ نیٹ میٹرڈ صلاحیت نصب ہے۔ اس میں سے تقریباً 461 میگا واٹ 2022 میں نصب کیے گئے جبکہ بقیہ 305 میگاواٹ 2015 سے 2021 کے درمیان شامل کیے گئے تھے۔ اے ای ڈی بی کے سربراہ نے اس خبر پر تبصرہ کرنے کے لیے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
گذشتہ ہفتے اسلام آباد میں اپنے گھر کی چھت پر سولر پینل لگانے والے ایک وکیل بیرسٹر شاہ رخ افتخار کہا، “مستقبل بنیادی طور پر شمسی توانائی کی طرف اور قابل تجدید توانائی کی طرف جانے کا ہے اور میرے خیال میں اس سے آپ کو بہت اچھی قیمت میں ریلیف ملے گا۔”
افتخار نے کہا کہ ان کے خاندان نے شمسی توانائی سسٹم پر جانے کا فیصلہ اس وقت کیا جب ان کا بجلی کا بل معمول کے مطابق 50,000 روپے ($171.43) سے بڑھ کر 150,000 روپے ($514.28) ماہانہ ہو گیا۔
20 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری قابل قدر تھی، اس بات پر اصرار کرتے ہوئے افتخار نے کہا، “میرا خیال ہے کہ ہم پہلے دو سالوں میں بچت نہیں کریں گے لیکن اس کے بعد گویا ہم بجلی کی ادائیگی نہیں کریں گے۔”
اسلام آباد کے رہائشی عمران مختار جنہوں نے گذشتہ دسمبر میں کا 5 کلوواٹ کا سولر سسٹم نصب کیا، نے عرب نیوز کو بتایا، “بغیر بیٹریوں کے سولر سسٹم لگانے کے بعد گرمیوں میں میرا بجلی کا اوسط بل 60 فیصد سے زیادہ کم ہو گیا۔”
“ہم دن میں شمسی توانائی استعمال کرتے ہیں یہاں تک کہ اے سی چلانے کے لیے بھی لیکن رات کو ہم گرڈ کی بجلی پر سوئچ کر لیتے ہیں۔”
مختار نے کہا کہ ان کا بجلی کا بل گرمیوں میں 10,000 روپے ($33.93) کے درمیان رہے گا جبکہ دیگر چار رکنی خاندانوں کو تقریباً 30,000 روپے ($101.78) کا بل دینا ہو گا۔
اسکائی الیکٹرک کے عمار نے کہا چونکہ زیادہ تر پینلز، بیٹریاں اور دیگر لوازمات درآمد کیے جاتے ہیں تو شمسی نظام کی زیادہ قیمت کے باوجود اس تبدیلی سے صارفین کو بجلی کے بلوں میں نمایاں کمی کا فائدہ ہوگا۔
ظہیر نے کہا، “اگر آپ 10 کلوواٹ کا ایک عام سسٹم انسٹال کر رہے ہیں جو زیادہ تر گھروں کی ضرورت ہے تو آپ کو صرف ساڑھے تین سال میں سرمایہ کاری کی رقم واپس مل جاتی ہے۔ اور اگر بجلی کے نرخ بڑھتے رہے تو یہ مزید کم ہو جائے گا۔”
سولر پینلز سے کاربن کے صفر اخراج جیسے ماحول دوست فوائد کے باوجود پاکستان 2030 تک 60 فیصد قابلِ تجدید توانائی کی طرف منتقلی کے ہدف کو پورا کرنے میں بہت پیچھے ہے جس سے کاربن کے اخراج میں 50 فیصد کمی متوقع ہے۔
عالمی مارکیٹ ایڈوائزری فرم مورڈور انٹیلی جنس کے مطابق 2022 تک پاکستان کی شمسی توانائی کی تنصیب کی کل صلاحیت 1.24 گیگاواٹ ریکارڈ کی گئی جس میں 2021 کے مقابلے میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔ مئی 2022 میں اس وقت کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے سولر پینلز پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ستمبر 2022 میں پاکستانی حکومت نے شمسی توانائی منصوبوں کے ذریعے 10,000 میگاواٹ (ایم ڈبلیو) بجلی پیدا کرنے کے لیے قومی شمسی توانائی اقدام کی منظوری دی جس کا مقصد مہنگے ڈیزل اور فرنس آئل کے درآمدی بل کو کم کرنا ہے۔
ورلڈ وائیڈ فنڈ-پاکستان کے ڈائریکٹر گورننس اینڈ پالیسی ڈاکٹر عمران خالد نے کہا لیکن پاکستان اب بھی اپنی توانائی کا صرف پانچ فیصد قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کرتا ہے جبکہ توانائی کے مکس میں کوئلے کا حصہ گذشتہ پانچ سالوں میں نمایاں طور پر بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، “چھت پر شمسی توانائی سسٹم کی تنصیب ایک اچھی چیز ہے لیکن ہمیں قابلِ تجدید توانائی کے بین الاقوامی عہد کو پورا کرنے کے لیے شمسی اور ہوائی بجلی کے بڑے منصوبے لگانے ہوں گے۔”
سول سوسائٹی کولیشن فار کلائمیٹ چینج نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عائشہ خان نے کہا کہ پاکستان میں سولر پینلز کی تنصیب مہنگی ہی رہی حالانکہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے درآمدات پر مراعات دیں۔
خان نے کہا، “ہم تمام سولر پینلز اور ان کے لوازمات درآمد کرتے ہیں اور گذشتہ سالوں میں ہماری کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی اور مال برداری کی لاگت میں اضافے کے ساتھ یہ مہنگے ہو گئے ہیں۔”
“ملک کے دور دراز علاقوں کو تو چھوڑیں، شہری علاقوں میں بھی سولر حل کی توسیع میں لاگت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔”