سرچ کمیٹی کی میٹرک پاس شخص کو ٹیکنیکل بورڈ کا چیئرمین تعینات کرنے کی سفارش

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سرچ کمیٹی کی میٹرک پاس شخص کو ٹیکنیکل بورڈ کا چیئرمین تعینات کرنے کی سفارش
سرچ کمیٹی کی میٹرک پاس شخص کو ٹیکنیکل بورڈ کا چیئرمین تعینات کرنے کی سفارش

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: اندھیر نگری چوپٹ راج،سرچ کمیٹی نے قانونی طور پر صرف میٹرک پاس شخص کو سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کا چیئرمین لگانے کی سفارش کر دی، موصوف قانونی طور پر صرف میٹرک پاس ہونے کے باوجود سرکار کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے 20 گریڈ تک پہنچ چکا ہے۔

سیاسی وابستگی کے باعث اعلی افسران اعتراض کی جرات نہیں کر سکے، قاضی عارف علی کو ان کے بھائی قاضی خالد علی نے اپنے دور وزارت میں قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 1997 میں غیر قانونی طور پر بطور سبجیکٹ اسپیشلسٹ بھرتی کرایا تھا۔

قاضی عارف علی نے 1980 میں جنرل گروپ میں بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن سے رولنمبر 80992 کے تحت سی گریڈ میں میٹرک پاس کیا تھا اس کے بعد پی ای سی ایچ ایس ایجوکیشن فاؤنڈیشن کالج میں انٹر سائنس پری انجینئرنگ گروپ میں سیاسی اثر رسوخ استعمال کر کے غیر قانونی طور پر داخلہ حاصل کیا۔

1983 میں رول نمبر 109358 کے تحت بورڈ آف انٹر میڈیٹ ایجوکیشن سے سائنس پری انجینئرنگ میں انٹر پاس کر لیا۔بورڈ قوانین کے مطابق سائنس میں میٹرک پاس کرنے والا امیدوار انٹر میں جنرل/ہیومینٹیز/کامرس گروپ میں تو داخلہ حاصل کر سکتا ہے۔

مگر میٹرک آرٹس میں پاس کرنے والا طالب علم سائنس کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتا ہے،اور یہ قانون پاکستان کے تمام تعلیمی بورڈز میں یکساں طور پر رائج ہے۔

قاضی عارف علی نے سائنس میں انٹر پاس کرنے کے بعد دوبارہ آرٹس میں گریجویشن کیا اور اس کے بعد 1997 میں مسلم ہسٹری میں ماسٹرکی ڈگری حاصل کی،اس وقت وہ ہمدرد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے میں مصروف ہیں اور غیر قانونی طور پر ترقیاں حاصل کرتے ہوئے 20 گریڈ پر براجمان ہیں۔

سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن میں بطور ڈائریکٹر ریسرچ تعینات ہیں، قانونی طور پر آرٹس گروپ میں میٹرک پاس کرنے کے بعد انٹر سائنس میں داخلہ حاصل کرنے اور پری انجینئیرنگ میں انٹر پاس کرنے کے بعد موصوف کی میٹرک کے بعد حاصل کی جانے والی تمام اسناد غیر قانونی ہین اور اس وقت وہ قانونی اور ٹیکنیکل طور پر صرف میٹرک پاس ہیں۔

اس وقت صوبائی سیکریٹری بورڈز ایند یونیورسٹیز اور سرچ کمیٹی کے مابین بندر بانٹ جاری ہے اور بعض ناپسندیدہ امیدواروں کی گریڈ 17 اور 18 میں 15 برسوں سے زائد سروس کی باوجود انہیں نا اہل قرار دیا جا رہا ہے اور بعض پسندیدہ امیدواروں کے نجی اسکولوں میں کلرک کی ملازمت کا تجربہ بھی شامل کر کے انہیں اہل قرار دیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ کے تعلیمی بورڈوں کے چیئرمین کے عہدوں کی خلاف ضابطہ بھرتیوں کا انکشاف

جب تعلیمی بورڈز اور جامعات گورنر سندھ کے ماتحت ہوتے تھے اس وقت وہاں جو مافیا قابض تھا ان تمام افسران کو اس وقت سیکریٹری بورڈز اینڈ جامعات میں جمع کر دیا گیا ہے جس کی سرپرستی صوبائی ایچ ای سی کے چئیرمین کر رہے ہیں۔

Related Posts