چینی ساختہ پاکستانی جنگی طیارے جے ٹین اور بھارتی فضائیہ کے فرانسیسی ساختہ جدید رافیل لڑاکا طیاروں کے درمیان حالیہ فضائی جھڑپ نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی دفاعی اداروں کے لیے ایک چونکا دینے والا لمحہ ثابت ہوئی۔
یہ واقعہ مستقبل کی جنگوں کے تناظر میں جنگی حکمتِ عملی، اسلحے کی مؤثریت اور فضائی برتری کے نئے معیارات کے تعین کے لیے غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
رافیل جسے بھارت نے جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ایک ناقابلِ شکست جنگی طیارہ قرار دیا تھا، اس کی دھاک صرف برِصغیر میں ہی نہیں بلکہ عالمی دفاعی حلقوں میں بھی محسوس کی جا رہی تھی۔
فرانسیسی ساختہ اس طیارے کو بھارت نے اپنی فضائی برتری کا ستون بنا کر پیش کیا، اور اسے دشمن کے لیے ایک ایسا خطرہ قرار دیا گیا جس کا توڑ ممکن نہیں لیکن جب پاکستان کے جانباز شاہینوں نے ایک لمحے میں اسے فضا سے زمین پر گرا دیا، تو دنیا کی نظریں حیرت سے پاکستان پر جم گئیں۔
یہ صرف ایک رافیل کی تباہی نہیں تھی بلکہ بھارتی عسکری غرور کا زوال تھا۔ پاکستان کے جے ایف 17تھنڈر اور چینی ٹیکنالوجی کی کامیاب حکمت عملی نے یہ ثابت کر دیا کہ جدید ہتھیاروں سے زیادہ اہمیت مہارت، تجربہ اور حوصلے کی ہوتی ہے۔
اس ایک واقعے نے نہ صرف بھارت کی دفاعی پالیسی کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ عالمی اسلحہ مارکیٹ میں فرانسیسی کمپنی ڈاسو ایوی ایشن کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگا دیاہے۔
چین اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی عسکری شراکت داری نے ایشیا میں طاقت کے توازن کو نئی جہت دی ہے اور بھارت کو ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ عسکری برتری کا خواب صرف مہنگے ہتھیاروں سے نہیں بلکہ حکمت عملی، ہم آہنگی اور حقیقی قوتِ ارادی سے مکمل ہوتا ہے۔
جنگی صورتحال: چین، پاکستان اور بھارت کا سامنا
بدھ 7 مئی کے روز پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے جن میں سے تین جدید رافیل شامل تھے۔ بین الاقوامی میڈیا ادارے رائٹرز اور سی این این نے امریکی انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان نے چین سے حاصل کردہ جے ٹین لڑاکا طیارے استعمال کرتے ہوئے کم از کم دو بھارتی جنگی طیارے مار گرائے جن میں ایک طیارہ رافیل تھا۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق ایک سینئر امریکی اہلکار نے بتایا کہ پاکستانی افواج نے بھارتی فضائی کارروائی کے ردِ عمل میں فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل داغے جو بھارتی طیاروں کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی جے ٹین طیاروں نے جدید چینی پی ایل 15 میزائل استعمال کیے جبکہ بھارتی رافیل ممکنہ طور پر یورپی میٹیور میزائل سے لیس تھے۔
بی بی سی کی تصدیق: ملبہ، ویڈیوز اور شواہد
بی بی سی نیوز نے بھی اس جھڑپ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بھارتی پنجاب کے علاقے بھٹنڈہ میں رافیل طیارے کے ملبے کی ویڈیوز حاصل ہوئیں جنہیں جغرافیائی طور پر تصدیق کیا گیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک ویڈیو میں بھارتی فوجی ملبہ جمع کرتے دکھائی دیے جبکہ دیگر ویڈیوز میں رات کے وقت کھیت میں جلتا ہوا ملبہ اور میزائل جیسے پروجیکٹائل کو آسمان سے آتے دیکھا جا سکتا ہے۔
برطانوی دفاعی تجزیہ کار جسٹن کرمپ کے مطابق ویڈیو میں دکھایا گیا ملبہ دراصل فرانس میں تیار کیے گئے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کا ہے، جو رافیل اور میراج 2000 دونوں پر نصب کیا جا سکتا ہے۔
فرانسیسی انٹیلی جنس کی تصدیق اور رافیل کی تاریخ کا پہلا نقصان
فرانسیسی انٹیلی جنس کے ایک اعلیٰ افسر نے سی این این کو بتایا کہ پاکستان نے بھارتی فضائیہ کا ایک رافیل جنگی طیارہ مار گرایا اور یہ رافیل طیارے کی جنگی تاریخ کا پہلا نقصان ہے۔ اس انکشاف کے بعدنہ صرف فرانسیسی دفاعی حلقوں میں ہلچل مچ گئی بلکہ یورپی اسلحہ ساز ادارے بھی اس واقعے کی باریک بینی سے جانچ کر رہے ہیں۔
رافیل طیارہ بنانے والی کمپنی داسو ایوی ایشن اور میزائل تیار کرنے والی یورپی کمپنی ایم بی ڈی اے نے اس واقعے پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
عالمی دفاعی اداروں کا مطالعہ، تجزیہ اور مستقبل کی تیاری
بین الاقوامی ادارہ برائے اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سینئر رکن ڈگلس بیری کے مطابق یہ فضائی جھڑپ دنیا بھر کی افواج کے لیے عملی میدان میں جدید ہتھیاروں کی مؤثریت جانچنے کا نادر موقع ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ ممکنہ طور پر دنیا کے دو جدید ترین فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں چینی پی ایل 15 اور یورپی میٹیور کے درمیان پہلا براہ راست ٹکراؤ تھا۔
ایک مغربی دفاعی تجزیہ کار نے رویٹرز کو بتایا کہ پی ایل 15 میزائل کی کارکردگی امریکی دفاعی اداروں کے لیے بھی باعثِ تشویش رہی ہے، اسی لیے امریکہ اس کا جواب دینے کے لیے ایم 260میزائل کی تیاری میں مصروف ہے۔
یورپی ممالک میٹیور میزائل کی کارکردگی میں اضافے کے لیے “مڈ لائف اپ گریڈ” منصوبہ بنا چکے ہیں، لیکن اس پر پیش رفت سست ہے۔
غیر واضح پہلو اور جنگی الجھنیں
مغربی دفاعی ماہرین کے مطابق اس جھڑپ میں کئی پہلو ابھی تک غیر واضح ہیں، جیسے کہ آیا پی ایل 15 یا میٹیور میزائل استعمال ہوئے یا نہیں، پائلٹوں کی مہارت کی سطح کیا تھی، اور کیا پاکستان کے پاس پی ایل 15 کا اصل ورژن تھا یا محدود ایکسپورٹ ورژن۔
ڈگلس بیری کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کے پاس ایکسپورٹ ورژن ہے تو اس کی کارکردگی اصل ورژن سے کمتر ہو سکتی ہے لیکن میدانِ جنگ میں ثابت ہو چکا ہے کہ یہ بھی ایک مہلک ہتھیار ہے۔
پاک چین دفاعی اتحاد اور امریکا کا ردِعمل
پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا دفاعی تعاون اب صرف ساز و سامان تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کی جڑیں جنگی حکمتِ عملی اور انٹیلی جنس شیئرنگ تک پھیل چکی ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ چین کی طرف سے پاکستان کو فراہم کردہ جے ٹین طیارے اور پی ایل 15 میزائل مستقبل کے لیے ایک اسٹریٹیجک گیم چینجر بن چکے ہیں۔
دوسری جانب امریکا نے لاک ہیڈ مارٹن کمپنی کو ایک نیا معاہدہ دیا ہے تاکہ وہ اپنے نئے اسٹیلتھ لڑاکا طیارے تیار کرے جو چین اور دیگر عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہوں گے۔
دنیا بھر میں یقیناً اس واقعے کی چھان بین ہوگی مگر جنگی حالات کی دھند سب کچھ واضح نہیں ہونے دے گی۔ جیسے یوکرین کی جنگ میں اسلحہ ساز کمپنیوں کو مسلسل فیڈبیک مل رہا ہے، ویسے ہی بھارت، چین اور پاکستان بھی اس واقعے سے متعلق ڈیٹا ایک دوسرے سے شیئر کر سکتے ہیں۔
بھارت کی خاموشی
اب تک بھارتی حکومت کی طرف سے اس واقعے پر کوئی واضح ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اس موضوع پر باضابطہ معلومات مناسب وقت پر شیئر کی جائیں گی۔
ایک واقعہ، کئی سوالات
رافیل طیارے کی تباہی نہ صرف بھارت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے بلکہ عالمی سطح پر ایک انتباہ بھی ہے کہ اب فضائی برتری صرف مغربی ٹیکنالوجی پر منحصر نہیں رہی۔ چین، پاکستان اور دیگر غیر مغربی قوتیں بھی میدانِ جنگ میں مؤثر طریقے سے اپنی موجودگی منوا چکی ہیں۔
یہ جھڑپ نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ انڈو پیسیفک، تائیوان، اور مشرقِ وسطیٰ جیسے خطوں کے لیے دفاعی تجزیہ کاروں کو آنے والے دنوں کی جھلک دکھا چکی ہے۔