عدالتی حکم امتناع کے باوجود رعنا لیاقت علی خان کالج میں جونیئر خاتون پرنسپل تعینات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عدالتی حکم امتناع کے باوجود رعنا لیاقت علی خان کالج میں جونیئر خاتون پرنسپل تعینات
عدالتی حکم امتناع کے باوجود رعنا لیاقت علی خان کالج میں جونیئر خاتون پرنسپل تعینات

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: سندھ حکومت نے عدالتی حکمِ امتناع کے باوجود رعنا لیاقت علی خان کالج میں گریڈ 19 کی جونیئر خاتون اسسٹنٹ پروفیسر کو پرنسپل تعینات کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت کے سروسز جنرل ایڈمنسٹریشن اینڈ کورآرڈینشن ڈیپارٹمنٹ نے عدالتی حکم امتناع کے باوجود گریڈ 20 کی پروفیسر عزراں منور فاروقی کی جگہ گریڈ 19 کی اسسٹنٹ پروفیسر بسمہ بشریٰ شاہ کو رعنا لیاقت علی خان گورنمنٹ ہوم اکنامکس کالج میں پرنسپل تعینات کر دیا، جبکہ ہوم اکنامکس پروفیسر نے تاحال چارج نہیں چھوڑا۔ 

یہ بھی پڑھیں:

جامعہ کراچی مشترکہ گروپس کمیٹی کے تحت وی سی آفس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ

 گریڈ 20 کی ہوم اکنامکس کی پروفیسر نے عدالتی حکم کی وجہ سے تاحال چارج نہیں چھوڑا۔ گریڈ 19 کی سوشیالوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر بسمہ بشریٰ شاہ اس سے قبل ڈی جی کالجز سندھ میں ڈائریکٹر ایچ آر ایم تعینات تھیں جن کا چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ کے حکم سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے تحت مذکورہ کالج میں بطور پرنسپل تبادلہ کیا گیا ہے۔

دستاویزات کے مطابق رعنا لیاقت علی خان ہوم اکنامکس کالج سے 13 فروری 2021 کو روبینہ حکیم ریٹائرڈ ہوئی تھیں جن کی ریٹائرڈمنٹ کے بعد فہیمہ فاطمہ جولائی 2021 تک پرنسپل تعینات رہی ہیں جن کی ریٹائرڈمنٹ کے بعد 16 اگست میں اُس وقت گریڈ 19 کی سینئر ایسوسی ایٹ پروفیسر عزراں منور فاروقی کو چارج دیا گیا تھا۔

بعد ازاں عزراں منور فاروقی اکتوبر 2021 میں گریڈ 19 سے گریڈ 20 میں ترقی پا گئیں جس کے بعد ڈی جی اور آر ڈی آفس کے مبینہ کرپٹ افراد نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے 10 جنوری کو عزراں منور فاروقی کا سرسید کالج میں اکنامکس پروفیسر کے طور پر تبادلہ کر دیا تھا جس کے خلاف عزراں منور فاروقی نے عدالت سے رجوع کرلیا۔ 

رجوع کرنے پر عدالت نے مدعا علہیان کو رعنا لیاقت علی خان گورنمنٹ کالج آف ہوم اکنامکس کی پرنسپل اور سنیئر پروفیسر عزراں منور فاروقی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے روک دیا اور ہدایت جاری کی کہ سینئر پروفیسر اپنی سیٹ تاحکم ثانی نہیں چھوڑیں گی۔ فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تفصیلی جواب طلبی بھی کی گئی۔ 

درخواست گزار پروفیسر عزراں منور فاروقی کے وکیل نے حکومت کا 10 جنوری کو جاری کردہ نوٹیفکیشن عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے بتایا کہ مدعا علہیان نے ان کی مؤکلہ کا 10 جنوری کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سر سید گورنمنٹ گرلز کالج ناظم آباد میں تبادلہ کردیا ہے۔ مدعا علیہان کا نوٹیفکیشن ختم کیا جائے۔ مؤکلہ عزراں منور فاروقی تدریس کا 32سالہ تجربہ رکھتی ہیں۔

وکیل نے عدالت کی توجہ دستاویزات پر مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ ان کی مؤکلہ گزشتہ 6 ماہ سے رعنا لیاقت علی خان گورنمنٹ کالج آف ہوم اکنامکس کراچی میں پرنسپل کے عہدے پر فائز  اور ایمانداری سے فرائض سر انجام دے رہی ہیں ۔ لیکن متعلقہ حکام نے حقائق کا جائزہ لیے بغیر ہی ان کی موکلہ کو عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی ہے۔

وکیل نے مزید بتایا کہ جس کالج میں ان کی موکلہ کام کر رہی ہیں وہاں گریڈ 20 کی 2 اسامیاں بھی خالی ہیں لیکن سندھ حکومت گریڈ 20 کی پروفیسر کو کسی دوسرے کالج میں تبادلہ کر رہی ہے۔ مدعا علیہان کا اقدام بدنیتی پر مبنی ہے۔ استدعا ہے کہ یہ کارروائی روکی جائے۔

عدالت نے فریقین کو نوٹس کر کے پرنسپل پروفیسر کو ہٹانے سے روکتے ہوئے نوٹس جاری کیئے تھے جس کے اب بعد عدالتی حکم کی توہین کرتے ہوئے اسی کالج میں ڈی جی آفس سے گریڈ 19 کی خاتون کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ کالج میں موجود پرنسپل کے بنگلے پر نظر رکھنے والے مبینہ طور پر کرپٹ افسران نے ڈی جی آفس کی جونیئر افسر ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ڈائریکٹر ہیومن ریسورس کو تعینات کیا تاکہ بنگلے اور اس کے ساتھ موجود سرونٹ کوارٹر پر غیر قانونی تعینات ہونے والے سینئر کلرک ذیشان کے قبضے کو تحفظ دیا جا سکے۔

ہوم اکنامکس کالج میں 32 سالہ تدریس کا تجربہ رکھنے والی خاتون کے بجائے گریڈ 19 کی جونیئر سوشیالوجی کی ایسوسی ایٹ کو لانا خلاف قانون نہیں کیونکہ کالج پرنسپل کی سیٹ کو گریڈ 19 کا کر دیا گیا ہے تاہم اخلاقیات کی روسے گریڈ 19 کے پرنسپل یا پروفیسر کی موجودگی میں گریڈ 19 کے غیر متعلقہ مضمون کے جونیئر کی تعیناتی غلط اقدام تصور کیا جاتا ہے۔

یونیورسٹی قواعد کے مطابق مضمون کے ماہر کو ہی متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بنایا جاتا ہے۔پیپلز پارٹی کے نام پر دھمکیاں دیکر کالج میں انانیت پھیلانے والے گریڈ 14 کے سینئر کلرک سید ذیشان احمد نے سابق پرنسپل کی غیر موجودگی میں بنگلے پر قبضہ کیا تھا جس پر 15 پر کال کر کے پولیس بلائی گئی تھی۔

بعد ازاں ریجنل ڈائریکٹر کالجز حافظ عبدالباری اندھنڑ نے پروفیسر صالح عباس اور ڈی جی اسکول منسوب صدیقی پر مشتمل ٹیم سے انکوائری کرائی جس میں صالح عباس کی انکوائری کے مطابق مذکورہ بنگلے کے ساتھ ملحقہ سرونٹ کوارٹر سید ذیشان رضوی کے نام پر ظاہر کیا گیا تھا جس کے بعد 27 جنوری کو آر ڈی عبدالباری اندھنڑ نے شکایات کو غلط قرار دیکر 28 جنوری کو سرونٹ کوارٹر سید ذیشان احمد کو دینے کا حکم جاری کیا تھا ۔

خیال رہے کہ گریڈ 14 کے کلرک سید ذیشان احمد نے مبینہ طور پر ایک درخواست پر سابق وزیر تعلیم سعید غنی سے سرونٹ کوارٹر کا نوٹ لکھوایا تھا جس کو سابق پرنسپل فہیمہ فاطمہ سے پرانی تاریخوں میں الاٹ کرایا جس کا کالج ریکارڈ میں آؤٹ اور ڈائری نمبر تک موجود نہیں۔ اب یہ بنگلہ 28 فروری کو سابقہ پرنسل روبینہ حکیم خالی کریں گی جس پر قبضہ پکا کرنے کیلئے موجودہ پرنسپل کا تبادلہ کیا گیا ہے۔

Related Posts