قافلہ دعوت و عزیمت کو قافلہ شکست و ریخت مت بنائے!

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Qafila Dawat-e-Azeemat

جامعۃ الرشید نے بہت سے اچھے کام بھی کیے ہیں،ان میں سے ایک مثالی، منفرد اور قابل تقلید کام فضلائے کرام کی رہنمائی، خبرگیری اور باہمی رابطوں کا اہتمام ہے۔

جامعہ نے جس اہتمام سے فضلاء اجتماع کا انعقاد اور فضلاء کے ساتھ مسلسل مشاورت کا سلسلہ شروع کیا وہ وقت کی اہم ترین ضرورت بلکہ بہت سی خیروں کی بنیاد ہے۔

جامعۃ الرشید نے ماشاءاللہ یہ کام اتنے سلیقے اور اہتمامِ سے کیا کہ وہ فضلاء کرام جو آٹھ آٹھ برس دوسرے مدارس میں پڑھتے رہے لیکن جامعہ کے کسی ایک کورس میں بھی شامل ہوئے ان پر بھی پی ٹی آئی حکومت کی طرح اپنی تختی لگا کر ان کی بھی پوری خبر گیری کی دیگرمدارس میں بھی یہ سب کسی ناں کسی انداز سے ہوتا رہا اور ہورہاہے لیکن جامعۃ الرشید نے جس اہتمام اور سلیقے سے یہ کارخیر سرانجام دیا اس پر نہ صرف یہ کہ جامعہ کے احباب مبارک باد کے مستحق ہیں بلکہ ان کی اس کاوش کی تحسین کے ساتھ ساتھ تقلید بھی کی جانی چاہیے۔

حالیہ دنوں میں جامعۃ الرشید کے احباب نے ایک عجیب کام کیا،پہلے جامعہ بلکہ مجمع کا ایک وفد پنجاب کے مختلف اضلاع اور مدارس میں الحاق کے عنوان اور مقصد کے تحت روانہ کیا گیاجسے اعلانیہ اس مہم پر نکلنے کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو جامعہ نے حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے ملک بھر میں قافلے روانہ کیے،ان کو قافلہ دعوت وعزیمت کا نام دیا گیا،ان کی تصویری جھلکیاں اور کارگزاریاں مسلسل بڑھا چڑھا کر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اجاگر کی جارہی ہیں۔

سوشل میڈیا کی مصنوعی دنیا اور ایک اخبار کی یکطرفہ رپورٹنگ سے یوں لگتا ہے جیسے یہ قافلے فتوحات کے جھنڈے گاڑھتے چلے جارہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو دکھایا جا رہا ہے ویسا ہے نہیں مختلف رفقاء اور مختلف علاقوں سے جو کارگزاریاں آرہی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ قافلہ دعوت و عزیمت،دعوت و عزیمت سے زیادہ شکست و ریخت کے مشن پر ہے۔

برادر عزیز فاضل نوجواں مولانا عبدالودود صاحب کی ان قافلوں کے حوالے سے ایک رپورٹ نظر سے گزری جس میں وہ بہت اچھے انداز اور الفاظ سے کمنٹری کرتے ہوئے بلوچستان کے کسی بندے کے مجمع العلوم کے فارم کی وصولی کی بڑے فاتحانہ انداز سے نوید سناتے ہیں۔

ہم نے جب ہوش سنبھالا ان دنوں جامعۃ الرشید کو جہادی تنظیموں میں جوڑ توڑ اور شکست وریخت کے عمل میں مصروف پایا بعد ازاں جامعہ یکسو ہوکر تعلیمی،تدریسی،اصلاحی اور انقلابی کاموں میں مصروف عمل ہوگیا تو ہم بھی تقریباً دو عشروں تک جامعہ کے سفیر اور وکیل بنے رہے اور یکطرفہ محبت کے تقاضے نبھاتے رہے لیکن اب جامعۃ الرشید نے دوبارہ وہی اجتماعیت اور یکجہتی میں شگاف ڈالنے اور اتحاد کی فضا کو سبوتاژ کرنے کی سعی نامسعود شروع کر دی ہے اور لمحوں کی ایسی خطا کا ارتکاب کیا ہے کہ ہماری دانست میں صدیوں کو اس کی سزا بھگتنی پڑے گی۔اللہ رب العزت جلد از جلد سمجھ بھی عطا فرمائیں اور احساس بھی نصیب فرمائیں۔

کچھ لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ عین سال کے بیچ میں،اساتذہ کرام کے قافلے ملک کے چاروں صوبوں میں بھیجنے کی ایسی کیا فوری ضرورت آن پڑی تھی،یہ کام سال کے آخر میں اسباق مکمل ہونے کے بعد بھی کیا جا سکتا تھا انہیں خبر ہوکہ نوزائیدہ بورڈ کے لیے اپنے مسلک کے دس فیصد مدارس کو وفاق سے توڑ کر اپنے ساتھ الحاق کا ٹاسک ایک ایسا چیلنج ہے جس کے لیے بہت سے جتن کرنے پڑیں گے ورنہ بورڈ کی بقاء ہی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

جامعۃ الرشید کے احباب کی “مجبوریوں” کا ہمیں بخوبی اندازہ ہے اس لیے ہم انہیں اس تاریخی بلنڈر پر نہ نظرثانی کا مشورہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی سجدہ سہو کی درخواست کرسکتے ہیں اگرچہ دلی تمنا اور خواہش ہے کہ کاش! ایسا ہوجائے۔۔۔۔اور ہر وقت دعا گو بھی ہیں کہ اللہ کریں جلد ایسا ہو جائے۔۔۔۔ویسے بھی جو لوگ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اورحضرت مولانا عبیداللہ خالد صاحب جیسی عظیم ہستیوں کی فہمائش پر کان دھرنے کو تیار نہیں تو ہماشما کون ہوتے ہیں؟ لیکن صرف دو معصومانہ سی خواہشات اور عاجزانہ سی درخواستیں ہیں۔

(1) شکست و ریخت کی اس مہم کو دعوت و عزیمت کا نام نہ دیجیے ،مدارس کو توڑنے کی کوشش اور فضلاء سے رابطوں کے کام کو الگ الگ رکھئے تاکہ جامعۃالرشید کے فضلاء کے لیے اپنے اپنے علاقوں میں مسائل پیدا نہ ہوں،فضلاء کی خبر گیری اور رابطوں کی روایت متنازعہ نہ ہوجائے اور جامعۃ الرشید کے فضلاء میں سے بہت سے جو ماشاءاللہ کئی مثبت اور تعمیری سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں ان پر بھی شکست و ریخت کی چھاپ نہ لگ جائے۔۔۔کیونکہ جامعہ کی چار دیواری سے باہر کی دنیا کچھ مختلف اور سوشل میڈیا کی مصنوعی چکاچوند کے برعکس زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔

(2) شکست و ریخت کی محنت کے لیے “مخصوص افراد” کا انتخاب کیجیے،اس وقت بہت سے “شریف لوگ” ان قافلوں میں قریہ قریہ گھوم رہے ہیں، بہت سے ایسے ہیرےجنہیں بڑی مشکل سے تراشا گیا۔ تراشا تو آپ نے ہی ہے۔۔۔۔ آپ ہی کا کریڈٹ اور آپ ہی کا کمال ہے لیکن انہیں ایک نامسعود مہم پر جوت کر ان کا کام،ان کی شخصیت اور ساکھ متاثر نہ کی جائے۔ ان کو ان کے کاموں سے متعلق رہنے دیجیے۔۔۔شکست وریخت کے لیے الگ لوگوں کی تشکیل کیجیے۔۔ویسے بھی وفاق یا وفاق سے وابستہ عظیم شخصیات سے پرانی پرخاش رکھنے والے کئی لوگ آپ کے ہمسفر ہوگئے کچھ اور بھی مل ہی جائیں گے۔

جامعۃ الرشید کے ارباب حل و عقد،مجلس شوریٰ اور بالخصوص عالی ظرف حضرت قبلہ استاذ صاحب سے درخواست ہے کہ میری ان گزارشات کوایک ایسے دکھی اور شکستہ دل طالبعلم کی درخواست سمجھ کرضرور غور کیجیے گا جس نے آپ سے بہت سی خیروں کی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔

جو سمجھتا تھا کہ اپنی ہی صفوں اور سپاہ کو روند ڈالنے والے “پورس کے ہاتھیوں” کا قصہ محض کہانی ہے،جی ہاں! ایک ایسا امید پرست طالبعلم جس کے آپ سے متعلق بہت سے خوابوں کے ساتھ وہی ہورہا ہے جس کا قرآن کریم میں وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثًا” کی تمثیل کے ساتھ تذکرہ ہے۔

Related Posts