طورخم: پاکستان کے سیکڑوں طلبہ افغانستان میں زیرِ تعلیم ہیں، سرحد کی بندش کے خلاف احتجاج شروع کردیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے افغان سرحد کی بندش کے فیصلے سے قبل پاکستانی طلبہ کیلئے کوئی پالیسی تشکیل نہیں دی۔ افغان شہر جلال آباد کی روخان یونیورسٹی میں 203 پاکستانی طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔
کابل کے نجی میڈیکل کالج میں بھی 150 پاکستانی طلبہ علم کی دولت حاصل کر رہے ہیں۔ اسٹوڈنٹس یونین کا کہنا ہے کہ دیگر افغان تعلیمی اداروں میں بھی سیکڑوں پاکستانی طلبہ زیرِ تعلیم ہیں جن کیلئے پالیسی سازی کا فقدان ہے۔
صدر اسٹوڈنٹس یونین سلیمان شاہ نے کہا کہ پاکستانی طلبہ کورونا کے دوران وطن آئے تھے۔ تاحال طلبہ کے افغانستان جانے کیلئے حکومت نے کوئی پالیسی مرتب نہیں کی جس سے طلبہ کے روشن مستقبل پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
اسٹوڈنٹس یونین نے مطالبہ کیا ہے کہ ہمارے پاس سفری دستاویزات موجود ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستانی طلبہ کیلئے فوری طور پر پالیسی تشکیل دی جائے اور ان کے مسائل حل کیے جائیں۔
پاکستانی طلبہ کا کہنا ہے کہ کورونا کے باعث ہمارا تعلیمی سال متاثر ہوا ہے۔ امتحان کا موقع دیا جائے۔ دوسری جانب ڈپٹی کمشنرمنصورارشد کا کہنا ہے کہ پاکستانی طلبہ کو طورخم سے افغانستان جانے کی اجازت نہیں ہے۔
ڈی سی منصور ارشد نے کہا کہ این سی او سی نے طلبہ کیلئے کوئی پالیسی تشکیل نہیں دی۔ ہم نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کو پاکستانی طلبہ کی مشکلات سے آگاہ کردیا ہے۔پالیسی کے فقدان پر طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔
خیال رہے کہ اِس سے قبل وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افراد کو وارننگ دے رہے ہیں کہ 14 اگست تک ملک چھوڑ دیں، اس کے بعد ایکشن لیں گے۔ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام 14اگست تک مکمل ہوگا۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ 14 اگست تک آن لائن ویزے کی درخواست دینے والوں کی فیس معاف کردیں گے۔ غیر ملکی طاقتیں نادرا کے نظام کے خلاف مذموم پراپیگنڈہ کر رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام 14اگست تک مکمل کرلیا جائے گا، شیخ رشید