صدر عارف علوی نے نیب ترمیمی بل بغیر دستخط کے واپس کردیا

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

75واں یومِ آزادی، صدر نے قیدیوں کی سزاؤں میں کمی کا اعلان کردیا
75واں یومِ آزادی، صدر نے قیدیوں کی سزاؤں میں کمی کا اعلان کردیا

اسلام آباد: صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نیب ترمیمی بل 2022ء بغیر دستخط کے واپس کردیا۔

تفصیلات کے مطابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن ترمیمی بل کے بعد نیب ترمیمی بل بھی بغیر کسی دستخط کے واپس کردیا۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد انہیں اس بل کو ایکٹ بنانے کے لیے وزارتِ پارلیمانی امور نے ارسال کیا تھا، تاہم عارف علوی نے بل پر دستخط نہیں کیے۔

صدرِ مملکت نے اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر کے ممالک وائٹ کالر کرائم پر قابو پانے کی کوششیں کررہے ہیں، سیاسی عناصر کا کالا دھن جو کہ ٹیکس چوری، جرائم اور بدعنوانی کے دیگر ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے، کوئی ایسا نشان نہیں چھوڑتا کہ جس کا کھوج لگایا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:

عمران خان کا نیب قوانین میں ترمیم کیخلاف یومِ سیاہ منانے کا اعلان

ڈاکٹر عارف علوی نے فیٹف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایف اے ٹی ایف بھی ایک ایسی ہی مثال ہے جو کہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے کئی دہائیوں سے کام کررہا ہے، اس لیے ہمیں ایسے معاملات پر اسلامی فقہ سے بھی ہدایت لینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ملزم کو ذرائع آمدن کے بارے میں ثبوت پیش کرنا ہوتے ہیں کہ جائیداد یا دولت کہاں سے اور کیسے حاصل کی؟ دولت کی ملکیت ثابت کرنا استغاثہ کی جب کہ دولت کے ذرائع ثابت کرنا ملزم کی ذمہ داری ہے، نامعلوم ذرائع سے دولت کا حصول پاکستان میں ایک جرم تھا مگر ان ترامیم سے اس تصور کو کمزور کرکے اسے کافی حد تک غیر موثر بنا دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

نیب قوانین میں ترمیم سے مشترکہ حکومت اپنے کیسز ختم کرے گی، فواد چوہدری

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ نے بھی اس عام تاثر کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے نیب آرڈیننس کے نفاذ میں خامیاں موجود ہیں، یہ قانون بھی دیگر قوانین کی طرح انتظامیہ کو اختیار دیتا ہے کہ اس کا استعمال طاقت ور عناصر کے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا جاسکے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایک طرف جب عوام کی جانب سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا تقاضا کیا جاتا رہا تو دوسری طرف طویل عدالتی کاروائیوں اور غیر موثر استغاثہ نے بدعنوانی کو بے نقاب کرنا، روکنا اور ختم کرنا بہت مشکل بنا دیا، ہمیں گزشتہ چند دہائیوں کے تجربات کی روشنی میں ان قوانین میں موجود واضح سقم دور کرنے، انصاف کی فراہمی مؤثر بنانے کے لیے ترامیم لانی چاہیے تھی۔

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے مزید کہا کہ ہمیں اس بات کی ہرگز توقع نہ تھی کہ پچھلی حکومتوں کی کاوشوں پر پانی پھیر دیا جائے گا اور احتساب کے عمل کو ناقابل یقین حد تک کمزور بنادیا جائے گا، یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ ادارے کے بنیادی ڈھانچے میں بہتر ی لانے کے بجائے بغیر کسی متبادل نظام کے احتساب کے عمل کو زمین بوس کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جو اقوام ایسے قوانین اپناتی ہیں وہ نہ صرف عام آدمی کے استحصال کا موجب بنتی ہیں بلکہ معاشرے میں ناانصافی کے فروغ کا بھی باعث بنتی ہیں، میں ذاتی طور پر پاکستان کے آئین کی تقلید اور پاسداری کرتا ہوں، ہمیں قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے، میں خود کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہوں اور اس سے معافی کا طلب گار رہتا ہوں، میرا ضمیر مجھے احتساب ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

Related Posts