وزیراعظم کا دورۂ چین ۔۔۔بین الاقوامی سیاسی تناظر میں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

خطے کی جغرافیائی سیاسی صورتحال کا جائزہ لینے سے وزیر اعظم کے سابقہ دوروں کے مقابلے میں حالیہ دورۂ چین کی اہمیت کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔

موجودہ عالمی مسائل جیسے  امریکا کی چین مخالف خارجہ پالیسی، غزہ اور یوکرین کے تنازعات اور مختلف شعبوں میں چین روس تعاون اہم عوامل ہیں۔ چین نے جیو اکنامک نمو پر توجہ مرکوز کرنے سے عالمی کھلاڑیوں کی توجہ جیو پولیٹیکل حکمت عملیوں کی طرف مبذول کرائی، جس کا مقصد اپنی عالمی حیثیت کو بلند کرنا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے حال ہی میں ہمسایہ ملک اور بے مثال دوست چین کا5روزہ دورہ کیا،  جہاں چینی شہر شینزن میں انہوں نے پاک چائنا بزنس فورم میں شرکت کی جبکہ 2013 سے اب تک کیے گئے دوروں میں سے یہ وزیراعظم شہباز شریف کا اب تک کا سب سے اہم دورہ ہے۔ اس دورے کے 3 پہلو ہیں جو آپس میں منسلک ہیں، تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

دورے کا پہلا پہلو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا فیز 2 ہے جس کے تحت دونوں ممالک سی پیک پر دو طرفہ تعاون کو فروغ دیتے ہوئے سی پیک کی اپ گریڈیشن پر توجہ دی گئی ۔ دوسرا پہلو خطے کی صورتحال اور جیو پولیٹیکل معاملات ہیں   جن کے سی پیک پر مضراثرات ہوسکتے ہیں جبکہ تیسرا پہلو یہ کہ امریکا پاک چین دو طرفہ تعاون اور سی پیک فیز 2 کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ خاص طور پر روس یوکرین جنگ، غزہ جنگ ، چین کا تیزی سے عالمی افق پر ابھرنا اور افغانستان میں طالبان حکومت کی صورتحال کے تناظر میں یہ تیسرا پہلو بہت اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔

چین کی اقتصادی سفارت کاری کے نتیجے میں وسیع عالمی معاہدے ایک اہم اقدام قرار دئیے جاسکتے ہیں جو عالمی معاملات میں اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ چین ایک سرکردہ مینوفیکچرنگ اور تجارتی ملک بن گیا ہے جس کے امریکہ سمیت دیگر ممالک سے کافی اقتصادی تعلقات اور تجارتی معاہدے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف کے  دورۂ چین میں اسٹریٹجک تعاون اور شراکت داری پر بات چیت ہوئی جس میں  سی پیک کی اعلیٰ معیار کی ترقی، خصوصی اقتصادی زونز اور انفراسٹرکچر، صحت اور میڈیا جیسے مختلف شعبوں پر توجہ دی گئی۔ سیکورٹی اور اقتصادی تعاون پر زور دیتے ہوئے متعدد مفاہمت کی یادداشتوں (MOUs) پر دستخط  بھی کیے گئے۔

من حیث القوم پاکستانی یہ دیکھتے ہیں کہ سی پیک میں پیشرفت سے عوام کا کیا فائدہ ہوگا؟ ہم یہ کہتے ہیں کہ پاک چین دوستی شہد سے میٹھی، سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند ہے تاہم جب تعلقات کی باری آتی ہے تو ہر ملک کو اپنے عوام کے مفادات کو دیکھنا ہوتا ہے اورجیو اکنامک معاملات کی بلندیوں پر پہنچنے کے ساتھ ہی چین نے سی پیک کا آغاز کیا تھا جو بی آر آئی (بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو) کا حصہ ہے۔

*یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ خصوصی اقتصادی زونز کی ترقی اور کاروباری عمل کو ہموار کرنے اور چینی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کا کردار اہم ہے۔ کاروباری رابطوں اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے میں وزیر اعظم کی کوششوں کی اہمیت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ *

اگر ہم سی پیک کی جیو پولیٹیکل اہمیت کا جائزہ لیں تو امریکا اور اس کے اتحادیوں کو پاک چین اقتصادی راہداری  کسی لحاظ سے نہیں بھاتی  ۔ حال ہی میں عرب اسٹیٹ اینڈ چائنہ کو آپریشن کے  اجلاس میں چین نے کہا کہ ہم علیحدہ سے غزہ کے تناظر میں  امن کانفرنس کر لیں گے جس سے امریکا اور مغربی ممالک پر دباؤ پڑا ہے جبکہ چین سی پیک کو شہرگ (نرو لائن) کی حیثیت دے رہا ہے کیونکہ چین کو 16 ہزار ناٹیکل میل کا طویل اور خطرات سے بھرپور فاصلہ طے کرکے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے سامنے سے گزر کر ساؤتھ چائنا سی جاناہوتا تھا ، اس لیے سی پیک کو ایک محفوظ راستہ سمجھتے ہوئے جلد از جلد عملدرآمد چین کے بھی مفاد میں ہے۔ سی پیک کے فیز 2 میں پاکستان کیلئے  اسپیشل اکنامک زون کی تعمیر کی اہمیت کلیدی ہے۔

جب تک اسپیشل اکنامک زون نہیں بنیں گے ، پاکستان سی پیک سے خاطرخواہ فوائد حاصل نہیں کرسکتا اور اس ضمن میں پاک چین دوستی  اور سی پیک سے خائف ممالک   مختلف سرگرمیوں میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ کبھی ڈھکے چھپے اور کبھی واشگاف الفاظ میں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ بشام کا واقعہ انتہائی تشویشناک ہے جس میں چینی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھا رہا ہے۔

بیرونی مداخلت اور دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان میں چینی شہریوں اور منصوبوں کی سیکیورٹی ایک بڑی تشویش ہے۔ دونوں ممالک چینی افراد اور سرمایہ کاری کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔پاکستان کو چین اور امریکا جیسی عالمی طاقتوں کے درمیان  بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کے درمیان دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں توازن برقرار رکھنا پاکستان کی سفارتی حکمت عملی کے لیے بہت ضروری ہے۔

دہشت گردوں کے خلاف صرف زمینی جنگ ہی کافی نہیں ہے بلکہ پاکستان نے 20 نکات کا جو نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا جس کے 16 نکات رہ گئے ہیں، اس میں سے بھی ہم  مکمل طور پر صرف 4 یا5 پوائنٹس پر عملدرآمد یقینی بنا سکے ہیں اور ابھی ہمیں مزید نکات پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے۔ پھر پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو بھی دیکھے کہ اس میں کیا کیا سقم ہیں جو دہشت گردی کے فروغ کا باعث ہیں، افغانستان سے پاکستان کے تعلقات میں ایسے کیا مسائل تھے جن کی وجہ سے جن طالبان کو پاکستان نے پال پوس کر بڑا کیا، آج وہی اس کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔

امریکا کی خارجہ پالیسی کا  کلیدی  نکتہ ہی چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے سے متعلق ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا چین کو اپنے سپر پاور ہونے کے خلاف ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے اور اگر سی پیک جیسا منصوبہ مکمل ہوگیا اور اس میں پائپ لائن بچھ گئی تو چین کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ چین کا 80 فیصد تیل سمندری راستے سے شدید خطرات سےگزرتا ہوا 6 ہفتوں  سے زائد وقت میں  اپنی منزلِ مقصود تک پہنچتا ہےجبکہ یہی تیل  سی پیک کے ذریعے صرف 1 ہفتے میں چین کی حدود میں داخل ہوسکتا ہے اور چین کو ان تمام تر خطرات سے نجات مل جائے گی جو ماضی میں درپیش رہے۔

متذکرہ حالات کے باعث  پاکستان کو دہشت گردی کے بڑے خطرات کا سامنا ہے جن میں اندرون و بیرونِ ملک سے اور سرحد پار سے دہشت گردی اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان سمیت ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کے خدشات شامل ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو دہشت گردی جیسے خطرات سے نمٹنے کی جتنی ضرورت آج ہے ماضی میں کبھی نہیں تھی۔ چینی شہریوں کو پاکستان میں نشانہ بنایا جاتا ہے او ر جب کوئی چینی انجینئر یا سی پیک کا عہدیدار ایک جگہ سے دوسری جگہ کیلئے نکلتا ہے تو ہم سکیورٹی کے نام پر جو اقدامات اٹھاتے ہیں، اس سے بعض اوقات وہ پریشان ہوجاتے ہیں ، سکیورٹی دینا صرف سکیورٹی فورسز کا کام نہیں ہے بلکہ سکیورٹی ایک مکمل نقطہ نظر اور اس پر عملدرآمد کا نام ہے۔

ہونا تو یہ چاہئے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا سبب بننے والے تمام تر مسائل کا جائزہ لیا جائے اور انہیں مکمل طور پر ختم کرنے پر توجہ دی جائے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیا جائے اور سرحد پار سے  اسمگلنگ اوررسد کو بہانہ بنا کر دہشت گرد عناصر  کے داخلے کو روکا جائے  جبکہ  اسمگلنگ سے صرف تجارتی اشیاء ہی نہیں بلکہ غیر قانونی اسلحہ بھی پاکستان آتا ہے جس سے باقی ملک دشمن عناصر کے علاوہ کچے کے ڈاکو فیضیاب  ہوا کرتے ہیں ۔ آج سکیورٹی ادارے سر جوڑ کر سوچ رہے ہیں کہ کچے کے ڈاکوؤں کے پاس یہ اسلحہ کہاں سے آیا؟

حال ہی میں یہ انکشاف سامنے آیا تھا کہ کچے کے ڈاکوؤں کے پاس وہ اسلحہ ہے جو امریکا افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے عجلت کے ساتھ اختتام کے وقت چھوڑ کریہاں سے فرار ہوا تھا اور کچے کے ڈاکوؤں تک یہ اسلحہ پہنچانے میں ٹی ٹی پی کے ممبران و دیگر  کے ممکنہ کردار کو بھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ ضروری ہے کہ سی پیک کو لاحق خطرات سےسکیورٹی اقدامات اٹھانے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا انسداد کرکے بھی نمٹا جائے۔ صرف اسی صورت میں پاکستان اور چین کا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جسے ہم معاشی ترقی و خوشحالی کا نیادور قرار دے سکتے ہیں۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کے طور پر پاکستان کے انتخاب کو ایک سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ عالمی مسائل سے نمٹنے، جمہوری اصولوں کو فروغ دینے اور بین الاقوامی طاقت کی حرکیات کو متوازن کرنے میں یہ کامیابی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔حالانکہ ویٹو اختیارات اور سیاسی مفادات کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تاثیر پر سوالیہ نشان ہے۔ اس کی ساکھ اور اثر کو بڑھانے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے جس میں سلامتی کونسل کی رکنیت کا دائرہ کار بڑھانا اور ویٹوکے اختیارات کو متوازن کرنا اہمیت کا حامل ہے۔

Related Posts