پاکستانی ناظرین کے دلوں میں گھر کر جانے والا مقبول ڈرامہ پرورش اپنی 31ویں قسط کے ساتھ ایک نئے جذباتی موڑ پر پہنچ چکا ہے۔
اس قسط نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ یہ سیریل صرف ایک خاندانی ڈرامہ نہیں بلکہ پاکستان کے بدلتے ہوئے سماجی رویوں کا عکس ہے۔
پرورش دراصل ایک ایسی کہانی ہے جہاں والدین کی محبت کبھی کبھی سختی کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور جہاں بچوں کے خواب اکثر خاندانی روایتوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔
اس کہانی میں ناظرین کو وہ تمام جذبات ملتے ہیں جن کا سامنا آج کی پاکستانی نوجوان نسل کو درپیش ہے چاہے وہ آزادی کے خواب ہوں، والدین کی توقعات، یا معاشرتی دباؤ۔
مرکزی کردار ولی جہانگیر جسے ثمرجعفری نے نہایت سادگی اور گہرائی کے ساتھ نبھایا ہے، ایک ایسا نوجوان ہے جو امریکا میں پرورش پاتا ہے مگر وطن واپسی پر اسے اپنے خوابوں اور والد کی روایات کے درمیان انتخاب کرنا پڑتا ہے۔
ولی ایک موسیقار بننے کا خواہش مند ہے لیکن اس کا والد جہانگیر (نعمان اعجاز) اسے ایک مہذب، قابلِ فخر پیشے کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے۔
دوسری طرف مایا جس کا کردار آئینہ آصف نے ادا کیا ہے، ایک ذہین، پرعزم اور خود اعتماد لڑکی ہے جو ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔
مایا کی کہانی اُن لاکھوں لڑکیوں کی نمائندگی کرتی ہے جن کے خواب صرف اس لیے دبائے جاتے ہیں کہ وہ لڑکیاں ہیں۔ مایا کو گھر، محبت، تعلیم اور معاشرے کی روایتی زنجیروں کے درمیان اپنی راہ بنانی ہے۔
ڈرامے کی ہدایت کاری میثم نقوی کی ہے جنہوں نے ہر کردار کو نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں ناظرین کے سامنے پیش کیا۔ مصنفہ کرن صدیقی کی تحریر میں وہ گہرائی اور جزئیات موجود ہیں جو ہر طبقے کے فرد کو اپنے حالات سے جوڑ دیتی ہے۔
اس قسط میں خاص طور پر دادی (شمیم ہلالی) اور ماں (سویرہ ندیم) کے کرداروں نے بھی ناظرین کے دل جیت لیے جن کے جذباتی مکالمے ہر گھر میں گونجنے والے جملوں جیسے محسوس ہوئے۔
ڈرامہ ہر پیر اور منگل کی شب 8 بجے اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر ہوتا ہے اور ہر قسط کے ساتھ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یوٹیوب پر صرف 12 گھنٹوں میں 24 لاکھ سے زائد ویوز اس بات کی علامت ہیں کہ پرورش نے صرف اسکرین پر نہیں بلکہ دلوں پر بھی راج کر لیا ہے۔
پرورش نہ صرف ایک خاندانی کہانی ہے بلکہ یہ ان تمام نوجوانوں کی آواز ہے جو اپنے خوابوں کو جینا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر گھر، ہر نسل اور ہر جذباتی کشمکش کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔