نیتن یاہو کا سعودی عرب کے ساتھ پر امن تعلقات کا عندیہ

کالمز

zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟
zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟
Eilat Port Remains Permanently Shut After 19-Month Suspension
انیس (19) ماہ سے معطل دجالی بندرگاہ ایلات کی مستقل بندش

بنیامین نیتن یاہو تیسری مرتبہ اسرائیل کاوزیراعظم بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔ان کے پاس عہدہ سنبھالنے سے قبل حکومت کی تشکیل کے لیے 21 دسمبرتک کا وقت ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ فی الواقع قابل ذکرتاریخی امن ہوسکتا ہے۔

العربیہ میں پرنٹ اور ٹیلی ویژن کے صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں، مسٹر نیتن یاہو نے عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات، مشرق اوسط میں امریکی اتحاد کے ڈھانچے، ایران میں بدامنی، اسرائیل کی نئی سخت گیردائیں بازو کی حکومت، لبنان کے ساتھ امریکا کی ثالثی میں سمندری سرحدی معاہدے کے مستقبل اور روس،یوکرین جنگ پرتبادلہ خیال کیا۔

نیتن یاہو نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی اہمیت کا اعادہ کیا، جو عرب اسرائیل تنازع کوختم کرنے کی طرف ایک ’’انقلابی پیش رفت‘‘ہوگی جو “ہمارے خطے کو ان طریقوں سے تبدیل کردے گی جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سعودی حکام مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ فلسطینی ریاست کے بغیراسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات ممکن نہیں۔

مسٹر نیتن یاہو نے بند دروازوں کے پیچھے مختلف قسم کے امن کے مواقع تلاش کرنے پرآمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’میں کھلے معاہدوں پر یقین رکھتا ہوں ،ان تک خفیہ طور پر پہنچیں یا علانیہ پہنچیں‘‘۔

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ان کے اتحادیوں میں سے بعض کے نسل پرستانہ بیانات سے عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات پرکیا اثرپڑسکتا ہے؟مسٹر نیتن یاہو نے کہا کہ ’’دوسری جماعتیں میرے ساتھ شامل ہو رہی ہیں ، میں ان میں شامل نہیں ہوں گا‘‘۔

انھوں نے واضح کیا کہ وہ لبنان کے ساتھ امریکا کی ثالثی میں ہونے والے سمندری معاہدے کو مسترد نہیں کریں گے ، لیکن اس بات سے انکار کیا کہ یہ ایک امن معاہدہ تھا۔انھوں نے مزید کہا کہ وہ “ہم خیال ریاستوں کے مابین ٹھوس معاہدوں اور ایران اور اس کی آلہ کار تنظیموں کے ساتھ نام نہادمعاہدوں کے مابین بہت بڑا فرق دیکھتے ہیں جن کی عام طور پر دست خط سے پہلے ہی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ان سے العربیہ کی گفتگو کی تفصیل قارئین کی نذرہے:

العربیہ : آپ کے والد ایک مشہورمؤرخ تھے جو کارنیل میں پڑھاتے تھے۔آپ نے ان سے کیا سیکھا؟ تاریخ کے بارے میں آپ کی تفہیم اور امریکا میں پرورش پانے سے اسرائیل اور خطے کے بارے میں آپ کی تفہیم کس طرح متشکل ہوئی؟

نیتن یاہو: میرے خیال میں امریکا میں گزارے گئے وقت نے مجھے دنیا کے امن واستحکام کے تحفظ میں امریکا کے اہم کردار کی تعریف کرنے پرمجبورکیا۔ میں امریکا کے ساتھ اس اتحاد کو خاص طورپراہم سمجھتا ہوں۔ میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ میرے خیال میں میراایک اہم مقصد اپنے 40 سالہ دیرینہ دوست صدر بائیڈن سے بات کرنا ہوگا۔میں انھیں بتانے جا رہا ہوں کہ میں سمجھتاہوں کہ مشرق اوسط میں اپنے روایتی اتحادیوں کے ساتھ امریکا کے عزم کا اعادہ کرنے کی ضرورت ہے۔یقیناً اسرائیل وہاں موجود ہے اور ہمارے درمیان ایک مضبوط اوراٹوٹ تعلقات رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب اور دیگر ممالک کے ساتھ روایتی اتحاد کااعادہ کیا جانا چاہیے۔ اس رشتے میں وقتاً فوقتاً اونچ نیچ نہیں آنی چاہیے کیونکہ میرے خیال میں امریکا کے اتحادیوں اور اس کے ساتھ اتحاد کوہمارے خطے میں استحکام مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کے لیے وقتاً فوقتاً توثیق کی ضرورت ہے اور میں اس بارے میں صدر بائیڈن سے بات کرنا چاہتا ہوں۔

Related Posts