نیوم، صحرائے عرب میں جدید شہر بسانے کا منصوبہ دنیا کو ’سبز باغ‘ دکھانے کے مترادف کیوں؟

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نیوم، صحرائے عرب میں جدید شہر بسانے کا منصوبہ دنیا کو ’سبز باغ‘ دکھانے کے مترادف کیوں؟
نیوم، صحرائے عرب میں جدید شہر بسانے کا منصوبہ دنیا کو ’سبز باغ‘ دکھانے کے مترادف کیوں؟

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے جدید شہر کے منصوبے میں 90 لاکھ شہریوں کو بسانا چاہتے ہیں۔ 

تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق ولی عہد محمد بن سلمان نے پیر کو اعلان کیا کہ وہ ایک جدید شہر بنانا چاہتے ہیں، جس کے منفرد ڈیزائن میں آمنے سامنے دو ہوبہو عمارتیں کھڑی دکھائی دیتی ہیں جو 500 میٹر اونچی ہیں، یعنی امپائر سٹیٹ بلڈنگ سے بھی بڑی۔ ان عمارتوں کی چوڑائی 100 کلومیٹر سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔

یہ سعودی شہزادے کے 500 ارب ڈالر کے نیوم پراجیکٹ کا حصہ ہیں جس کے ذریعے بیلجیئم جتنے صحرا کو جدید شہر میں تبدیل کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

سعودی ولی عہد نے اس میگا پراجیکٹ کا اعلان 2017 میں کیا تھا اور اس سلسلے میں یہ عہد کیا گیا تھا کہ اس منصوبے سے ایک جدید تر شہری زندگی کی بنیاد رکھی جائے گی۔ اس کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانے کی توقع کی جا رہی ہے تاکہ معیشت پر سے تیل کی برآمد کا انحصار کم کیا جاسکے۔

مگر پانچ سال گزرنے کے باوجود نیوم منصوبہ تاخیر کا شکار ہے جس میں سب سے بڑی مشکل سعودی شہزادے کے خوابوں کو عملی جامہ پہنانا ہے۔

سعودی ولی عہد کا خواب ہے اندھیرے میں جگمگاتے ساحل، وسیع عریض صحراؤں والے ملک میں اربوں درخت، مقناطیسی قوت سے زمین کے اوپر دوڑتی مسافر ٹرینیں، ایک نقلی چاند، صحرا کے ساتھ ساتھ 100 میل طویل ماحول دوست شہر کا۔

سعودی عرب اپنے ملک کو سرسبز بنانے کے عزم کے تحت ایک ایسا شہر بسانا چاہتا ہے۔

کیا حقیقت میں ایسا ممکن ہے؟

نیوم انتظامیہ کے مطابق یہ مستقبل کا ایک ایسا نقشہ ہے جس کے تحت انسانیت ترقی اور جدیدیت کی منازل تو طے کرے گی مگر اس ترقی کا کرہ ارض کے ماحول پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑے گا۔

واضح رہے کہ شہر بسانے کے اس منصوبے کی مالیت لگ بھگ 500 ارب ڈالر ہے اور یہ سعودی عرب کے وژن 2030 کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت سعودی عرب اپنی معیشت کو تیل پر انحصار سے چھٹکارا دلا پائے گا۔

معلوم رہے کہ صرف تیل کی صنعت نے ہی سعودی عرب کو دولت سے مالا مال ملک بنایا ہوا ہے مگر اب سعودی عرب چاہتا ہے کہ ملکی معیشت کا تیل پر انحصار کم سے کم ہو۔

سعودی ولی نے جس شہر کا خواب دیکھا ہے وہ مجموعی طور پر 26,500 مربع کلومیٹر (10,230 مربع میل) کے رقبے پر تعمیر کیا جائے گا، یہ رقبہ کویت یا اسرائیل کے انفرادی رقبے سے بڑا ہے۔ شہر کے منصوبہ سازوں کا دعویٰ ہے کہ اس شہر میں سعودی قوانین لاگو نہیں ہوں گے کیونکہ یہ ایک خود مختار علاقہ ہوگا جس کے نظام کو سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جائے گا۔

ماہرین کے مطابق شہر کی تعمیر مرحلہ وار انداز میں ہوگی، جس پر سینکڑوں اربوں ڈالر لاگت آئے گی، مگر یہ سب مرحلہ وار انداز میں ہوگا، بالکل اس انداز میں جہاں طلب اور رسد میں زیادہ فرق نہ ہو گا۔

منصوبہ سازوں کا دعویٰ ہے کہ جب یہ شہر مکمل ہو جائے گا تو اس میں تیز رفتار ٹرینوں کے ذریعے سے سفر ہوگا۔ اور شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں زیادہ سے زیادہ 20 منٹ لگیں گے۔

منصوبہ سازوں کا کہنا ہے کہ نیوم کا تجارتی یا کمرشل مرکز بھی دلچسپ ہوگا جو بذات خود ایک پانی پر تیرتا ہوا چھوٹا شہر ہوگا۔ منصوبے کے مطابق شہر کا تجارتی مرکز سات کلومیٹر (4.3 میل) کے رقبے پر محیط ہو گا اور یہ دنیا کا سب سے بڑا تیرتا ہوا تعمیراتی ڈھانچہ ہوگا۔ 

کیا کسی صحرا میں ایسے شہر کی تعمیر ممکن ہے جو کہ سرسبز بھی ہو؟

آکسفورڈ یونیورسٹی میں توانائی کی ماہرین کے مطابق کہ نیوم منصوبے کے قابل عمل یا پائیدار ہونے کا اندازہ لگاتے وقت بہت سی چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ خیال میں رکھا جائے کہ یہاں کے باسی جو خوراک کھائیں گے کیا وہ مقامی سطح پر رہتے ہوئے تیار کی جائے گی جس میں وسائل کا زیادہ استعمال نہ ہو یا اس شہر کا انحصار بیرون ملک سے کھانوں کی درآمد پر ہو گا؟‘

واضح رہے کہ ویب سائٹ کا دعویٰ ہے کہ نیوم خوراک کے معاملے پر دنیا کا سب سے زیادہ خود کفیل شہر ہوگا۔ اس میں عمودی کاشتکاری اور گرین ہاؤسز کا ایک تصور ہے جو کہ ایک ایسے ملک کے لیے انقلابی حیثیت کا حامل ہو گا جو فی الحال اپنی خوراک کا تقریباً 80 فیصد بیرونی ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ اس کے متعلق اٹھائے جانے والے سوالات حق بجانب ہیں کہ کیا ایسا کرنا مستقل طور پر قابل عمل ہوگا؟

نیوم کا دفاع

نیوم کا دفاع کرنے والوں نے کہا ہے کہ نئے سرے سے ہوا اور شمسی توانائی سے چلنے والا ایک سمارٹ، پائیدار شہر بنانا ضروری ہے، جس میں کاربن سے پاک صاف کرنے والے پلانٹس کے ذریعے پانی فراہم کیا جائے۔

لیکن موسمیاتی ماہرین کو تشویش ہے کہ غیر ثابت شدہ ٹیکنالوجیز پر انحصار کرنا موسمیاتی تاخیر کا باعث ہوسکتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے خلاف اہم کارروائی کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے۔

ناقدین کی تنقید

ناقدین اس منصوبے پر سعودی ولی عہد کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے امیروں کی ضرورتیں زیادہ پوری ہوں گی اور اُن کا خیال رکھا جائے گا۔

اطلاعات کے مطابق ملک کے شاہی خاندان کے لیے یہاں محلات بنائے گئے ہیں۔ پہلے تعمیراتی منصوبوں کی سیٹلائٹ سے لی جانے والی تصاویر میں ایک ہیلی پیڈ اور ایک گالف کورس دکھائی دیتے ہیں۔

Related Posts