مودی کا جھکاؤ یا نئی چال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے پاکستان سے اچانک مثبت رابطہ معنی خیز قرار دیا جا رہا ہے، بھارتی وزیر اعظم نے صدر پاکستان اور وزیر اعظم کو یوم پاکستان کی مبارکباد کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان کی کورونا وباء سے متاثر ہونے پر خیریت دریافت کی ہے جبکہ گزشتہ 7 سال سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش اور دوستی کا ہاتھ جھٹکتے آئے ہیں۔

بھارتی سیاسی جماعت بھارتی جنتا پارٹی کا ایک ہی مشن رہا ہے کہ کسی طرح دنیا بھر میںپاکستان کو بدنام کیا جائے ، اس حوالے سے بھارت نے کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا بلکہ زیادہ تر بھارتی حکمرانوں نے خود مواقع بنائے ہیں،ان میں کبھی اپنے ایئر پورٹ پرخود حملہ کرایا تو کبھی ریلوے اسٹیشن اور بس اڈوں پر دھماکے کروا کر اس کا الزام پاکستان پر لگادیا ، اسی طرح کے درجنوں حملے اور ہشت گردی کے واقعات بھارت میں رونما ہوئے ہیں، ان میں سے بعض واقعات میں بھارتی حکومت سے منحرف گروپس بھی شامل ہیں۔

بھارت میں آزادی کیلئے مسلح جدو جہد کرنے والی 67 علیحدگی کی تحریکیں کام کر رہی ہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق ان میں 17 بڑی اور 50چھوٹی تحریکیں شامل ہیں جبکہ بھارت کے 162 اضلاع پر انتہا پسندوں کا مکمل کنٹرول ہے۔ ناگالینڈ ، مینر ورام ، منی پور اور آسام میں یہ تحریکیں عروج پر ہیں جبکہ بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک زوروں پرہے اور مقبوضہ کشمیرکا حال تو سب ہی جانتے ہیںکیوں کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستان سے بہت زیادہ عقیدت رکھتے ہیں اور بھارت سے علیحدہ ہو کر پاکستان میں شمولیت چاہتے ہیں اس لیے بھارت کشمیر یوں پر انتہائی وہشیانہ ظلم و ستم کر رہا ہے۔

یہاں انسانی حقوق کی پامالی سر عام کی جاتی ہے ، خواتین کے ساتھ نارواسلوک کیا جا تا ہے، ذات پات کے مذہبی رنگ میں الجھی بھارتی حکومت کے ہتک آمیز رویئے کے باعث ہی بھارتی ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکوں نے جنم لیا ہے۔

اکتوبر 2019ء میںبھارت کے شمال مشرقی ریاست منی پور کے دو منحرف رہنماؤں نے منگل کو لندن میں یک طرفہ طور پر منی پور کے بھارت سے آزادی کا اعلان کرتے ہوئے خود ساختہ جلاوطن حکومت کے قیام کا بھی اعلان کیا تھا۔اسی طرح ناگا لینڈ نے بھارت سے آزادی کا اعلان کرتے ہوئے 14 اگست2019 اپنے 73 ویں یوم آزادی کے طور پر منایا۔ ناگا لینڈ میں یوم آزادی کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

اس موقع پر ناگا لینڈ کا قومی پرچم اور قومی ترانہ بھی پیش کیا گیا۔ناگا لینڈ نے15 اگست بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منایا۔چیئرمین نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالزم (این ایس سی این) یروئیوو ٹکو کا یوم آزادی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ناگا لینڈ کے عوام اپنے آباؤ اجداد کے قومی فیصلے پر بالکل مطمئن ہیں کہ ناگا لینڈ 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا اور ہم ناگا لینڈ کی عوام کے درمیان تقسیم کرنے والے کسی بھی بیرونی فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے۔

ناگا لینڈ کے باسیوں کا کہنا ہے کہ ناگا لینڈ کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا کیونکہ ہماری اپنی زبان، اپنا مذہب اور اپنا کلچر ہے لیکن بھارت نے 1947 سے بعد جس طرح مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیا بالکل اسی طرح ناگا لینڈ پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔بھارت نے جب یہ دیکھا کہ کشمیر کی جدوجہد آزادی کے دوران منی پور اور ناگالینڈ ریاستوں نے بھارت سے آزادی کا اعلان کردیا ہے تو بھارت نے کشمیر کے ہاتھ سے نکلنے کے خوف سے کشمیر کے حوالے سے مروجہ آئین میں ترمیم کردیں اور کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا۔

اس کے ساتھ کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق بھی سلب کر لیے گئے اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جانے لگے ، دوسری طرف علیحدگی کی تحریکوں کی معاونت کرنے کا الزام پاکستان پر لگایا جاتا رہا ہے جبکہ بھارت کا اپنارویہ ان مقبوضہ علاقوں کے عوام سےانتہائی ظالمانہ رہا ہے، اسی باعث بھارتی ریاستوں میں اس لئے بھی علیحدگی کے رجحانات پائے جاتے ہیں کیونکہ ایک تو انہیں ان کی مرضی کے خلاف ’’انڈین یونین ‘‘کا حصہ بنا یاگیا تھا اور پھر بجائے بنیاد ی حقوق فراہم کر نے اور یہاں کے باشندوں کے دل جیتنے کے ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا ۔

ان کی تہذیب و تمدن ، شناخت اور زبان تک ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں اور آخر کار ان ریاستوں کے باشندے بغاوت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ گو وسائل کی کمیابی کے سبب بعض ریاستوں میں یہ تحریکیں زیادہ مؤثر نہیں رہیں تاہم علیحدگی کے رحجانات آج بھی پائے جاتے ہیں اور یہ ریاستیں کسی بھی پل بھارت کے چنگل سے بھاگ نکلنے کوتیار ہیں۔ایسی صورت میںبھارت اپنے وحشی پن میں کیے گئے ظلم ستم کے نتیجے میں ابھرنے والی علیحدگی کی تحریکوں اور رد عمل مین ان علیحدگی پسندوں کی عسکری کارروائیوں کا سارا ملبہ پاکستان پر تھوپتا رہا ہے ۔

پھر اچانک مودی جی کو کیا سوجی کہ انہوں نے یوم پاکستان کی مبارکباد کا پیغام دیا اور وزیر اعظم کی خیریت دریافت کی ہے، یہ دال میں کچھ کالا ہے یا ساری دال کالی ہے، کیا بھارت پاکستان سے دوستی کا ہاھ بڑھانے کے عوض قربانی کا خواہاں ہے، کیا بھارت چاہتا ہے کہ کشمیر میںاٹھائے ئے غیر قانونی اقدامات کی پاکستان مخالفت ترک کردے ، کیا بھارت یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کشمیر کی حمایت ترک کردے، کچھ تو دال میں کا لاضرور ہے۔

امن کے لیے دونوں ممالک میں مذاکرات بھی ہونے چاہئیں اور ایک دوسرے سے مثبت روابط بھی قائم ہونے چاہئیں مگر پاکستان کی ہر مثبت پیشکش کو ٹھکرانے والا بھارت اچانک پینگیں کیوں بڑھا رہا ہے، کیا کوئی نیا کھیل یا نیا الزام لگانے سے پہلے دنیا کو اپنے مثبت رویئے کا ڈھونگ دکھانا چاہتا ہے ، اگر ایسا ہے بھی تو سابقہ سازشوں کی طرح بھارت کی کئی بھی نئی سازش ناکام ہی ہوگی ،اور اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کشمیر کے حوالے سے یو ٹرن لے گا تو یہ اس کی بھول ہے ۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے25 کروڑ عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے واضح پیغام دیا ہے کہ پہلے 5 اگست کے اقدامات واپس لئے جائیں۔ مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے تمام فیصلے ختم کئے جائیںاور پھر کشمیرکے مسئلے کو مذاکرات کے ایجنڈے میں سر فہرست رکھا جائے ۔

وزیر اعظم یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم بے معنی مذاکرات میں دلچسپی نہیںر کھتے،اس ساری صورتحال میں بھارت کو یہ جان لینا چاہیے کہ اسے کامیا بی صرف نیک نیتی سے مذاکرات کرنے میں ہی مل سکتی ہے، دونوں ملکوں میں با مقصد مذاکرات اور بہتر تعلقات نہ صرف خطے میں امن و استحکام کے ضامن ہیں بلکہ دونوں ممالک کی ترقی کا بھی واحد راستہ ہیں۔

اس سے دونوں ممالک کے ہی نہیں بلکہ تمام پڑوسی ممالک کے درمیان مثبت روابط سے پاک بھارت سمیت تمام ہی ممالک کی معیشت کو استحکام حاصل ہوگا اور اس خطے کے عوام کی خوشحالی بھی اسی میں مضمر ہے۔

Related Posts