مولانا فضل الرحمان کی حکمت عملی، پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی محاذ آرائی سے گریز

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
(فوٹو؛ فائل)

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں خیبرپختونخوا کی سیاست ہمیشہ اہمیت کی حامل رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان سیاسی محاذ پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں جے یو آئی نے پی ٹی آئی کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ خیبرپختونخوا کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا حصہ نہیں بنیں گے۔

مولانا فضل الرحمان نے اپنی جماعت کے ذریعے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو اڈیالہ جیل میں پیغام بھیجا ہے کہ جے یو آئی خیبرپختونخوا کی حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک عدم اعتماد کا حصہ نہیں بنے گی۔ ذرائع کے مطابق، یہ پیغام عمران خان کی بہنوں کے ذریعے پہنچایا گیا۔

خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے جے یو آئی کے اس پیغام پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہماری حکومت گرا دی تو سیاست چھوڑ دوں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جتنا زور لگانا ہے لگالیں، آئینی طریقے سے حکومت نہیں گرا سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت عمران خان کی قیادت میں قائم ہے اور وہ جب چاہیں اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔

جے یو آئی کا یہ موقف خیبرپختونخوا کی سیاست میں ایک نئی پیچیدگی پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کو تحریک عدم اعتماد میں شامل نہ ہونے کا یقین دلایا ہے، لیکن یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ جے یو آئی کی اس پوزیشن کا صوبائی سیاست پر کیا اثر پڑتا ہے۔

علی امین گنڈا پور کی جانب سے سیاست چھوڑنے کا چیلنج اور جے یو آئی کا عدم مداخلت کا اعلان، دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی کشیدگی کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ پورے ملک کی سیاست پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔

آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا ہوگا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کی اس سیاسی کشمکش کا صوبے کی حکومتی استحکام پر کیا اثر پڑتا ہے اور دونوں جماعتیں کس حکمت عملی کے تحت اس صورتحال سے نمٹتی ہیں۔

Related Posts