کے پی کے میں طالبان کی حکومت دیکھ رہا ہوں، مولانا فضل الرحمن کا انتباہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو گلف ٹوڈے

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ اس وقت ذمہ دار ریاست کے بجائے وقتی اشتعال اور عجلت میں فیصلے کیے جارہے ہیں، لیکن ریاست کے معاملات دھمکیوں اور جذبات سے طے نہیں ہوتے۔

پشاور میں جے یو آئی کے تحت گرینڈ قبائلی جرگے کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ گرینڈ جرگے نے ”عزم استحکام“ کو ”عدم استحکام“ قرار دیا ہے، قبائلی جرگے کے ایجنڈے پر عزم استحکام آپریشن کی بات نہیں تھی لیکن فاٹا کے جرگے میں تمام صورتحال پر بحث ہوئی اور جرگے میں قبائلی عوام نے آپریشن عزم استحکام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغاننستان کے عوام کی امیدوں کو خاکستر کیا جارہا ہے، کیا ہم افغانستان کو مستحکم کرنے کے بجائے غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں؟ مسلح تنظیموں کو پرامن راستہ دینے پر اتفاق رائے ہوا تھا، یہ سب کیوں ختم کیا گیا؟

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم قرار داد مقاصد کے مطابق پاکستان کو امارت اسلامی بنانا چاہتے ہیں، آئین یہی کہتا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سرحدوں پر باڑ لگائی گئی اور اب باڑ کو ہٹا دیا گیا، ایک بار باڑ لگائی گئی تو پھر افغانستان سے لوگ کیسے آجاتے ہیں، جب باڑ کا پوچھتے ہیں تو جواب دیا جاتا ہے کہ باڑ اکھاڑ دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کہتا ہے کہ پاکستان کا استحکام ان کے لئے ضروری ہے، ذمہ دار ریاست ہونے کے ناطے سب کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے، کون ہے جو معاملات کو الجھاتا ہےاور مسائل پیدا کرتاہے، کون ہے جو اس خطے میں استحکام نہیں دیکھنا چاہتا۔

ان کا کہنا تھا کہ چند دن بعد جنوبی اضلاع میں امارت اسلامی کا قیام نظر آرہا ہے، ہم پورے پاکستان کو امارت اسلامی بنانا چاہتے ہیں، صوفی محمد کے ساتھ ہمارا نطریاتی اختلاف نہیں تھا لیکن زاویہ ٹھیک نہیں تھا۔

Related Posts