خواتین کو غیرت کے نام پر نہیں۔۔۔ توکیوں قتل کیاجاتا ہے؟ چیف جسٹس نے بتادیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

چیف جسٹس
(فوٹو: آج ٹی وی)

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اسلام خواتین کو بہت حقوق دیتا ہے،، ہم خواتین کو مسماٰۃ کہہ کر بلاتے ہیں لیکن جسے غیرت کے نام پر قتل سے موسوم کیا گیا، وہ غیرت کے باعث نہیں ہوتا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کی اصطلاح کو غلط استعمال کیاجاتا ہے۔ اصل معنی تکبر کی بنیاد پرقتل ہے جبکہ اسلام تکبر کی سخت ممانعت کرتا ہے۔

خطاب کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ہم اپنی مثبت ثقافت بھول چکے ہیں، میں پاکستان کے آئین سے کچھ مثبت چیزیں سامنے لانا چاہتا ہوں۔ آئین کے آرٹیکل 25 میں خواتین کیلئے اقدامات کا ذکر ہے۔ قرآن میں اقراء کے لفظ میں مرد یا عورت کی تخصیص نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 25 میں بھی خواتین اور مردحضرات سے مساوی سلوک کی بات کی گئی۔ آئین کہتا ہے کہ خواتین ملک کے ہر شعبے کی نمائندگی کریں گی۔ قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر ہی نہیں، الیکشن جیت کر بھی خواتین رکن منتخب ہوجاتی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانونِ شہادت آرٹیکل 122 کے تحت ثبوت کا سارا بوجھ استغاثہ پر ڈالتا ہے۔ اسلام کہتا ہے خواتین کی کردار کشی ایسا جرم ہے جس کی سزا دی جانی چاہئے۔ اسلام میں قذف کی سزا 80 کوڑے ہیں، کبھی نہیں سنا کہ کسی کو کوڑے مارے گئے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام زنا کا جرم ثابت کرنے کیلئے 4گواہوں کو لازمی قرار دیتا ہے اور جب غیرت کے نام پر قتل کرنا ہوتو چار گواہوں کی شرط پوری نہیں کی جاتی۔ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کی اصطلاح درست نہیں، اصل میں خواتین کو تکبر کی وجہ سے قتل کیاجاتا ہے۔

Related Posts