نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زبان بندی کیلئے رقم دینے کے کیس کی نگرانی کرنے والے نیویارک کے جج نے جمعہ کو فیصلہ سنایا کہ ٹرمپ کی سزا کا تعین 20 جنوری کو ہونے والی حلف برداری سے 10 دن پہلے کیا جائے گا۔ جج نے عندیہ دیا کہ وہ جیل کی سزا دینے کے حق میں نہیں ہیں۔
جج جوان مرچن نے کہا کہ ٹرمپ، جو کسی جرم میں سزا پانے والے پہلے سابق صدر ہیں، 10 جنوری کو اپنی سزا کے لیے یا تو ذاتی طور پر پیش ہو سکتے ہیں یا ورچوئل طور پر شامل ہو سکتے ہیں۔
اپنے 18 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جج مرچن نے نیویارک کی جیوری کی جانب سے ٹرمپ کو سزا دینے کے فیصلے کو برقرار رکھا اور ٹرمپ کے وکلاء کی جانب سے مقدمہ ختم کرنے کی تمام درخواستوں کو مسترد کر دیا۔
جج نے کہا کہ قید کی سزا کے بجائے وہ غیر مشروط رہائی دینے کے حق میں ہیں، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ٹرمپ پر کسی قسم کی شرائط لاگو نہیں ہوں گی۔ اس کے باوجود، یہ سزا ٹرمپ کو بطور مجرم وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتے دیکھے گی۔
78 سالہ ٹرمپ کو ممکنہ طور پر چار سال کی قید کا سامنا تھالیکن قانونی ماہرین، یہاں تک کہ نومبر کے صدارتی انتخابات جیتنے سے پہلے بھی، توقع نہیں کرتے تھے کہ جج مرچن سابق صدر کو جیل بھیجیں گے۔
جج نے کہا: “اس موقع پر یہ واضح کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عدالت قید کی کوئی سزا نافذ کرنے کے حق میں نہیں ہے۔” انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ استغاثہ نے بھی جیل کی سزا کو “عملی تجویز” قرار نہیں دیا۔
ٹرمپ، جن کے بارے میں توقع ہے کہ وہ اپنی سزا میں تاخیر کے لیے اپیل کریں گے، نے اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا: “یہ غیر قانونی سیاسی حملہ محض ایک جھوٹا تماشا ہے۔”
ٹرمپ نے جج مرچن کو “انتہا پسند متعصب” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حکم “جان بوجھ کر غیر قانونی ہے، آئین کے خلاف ہے، اور اگر برقرار رکھا گیا تو صدارت کے خاتمے کا باعث بنے گا۔”
ٹرمپ کو مئی میں نیویارک کی عدالت نے 34 الزامات میں مجرم قرار دیا تھا۔ یہ الزامات 2016 کے انتخابات سے قبل پورن اسٹار اسٹورمی ڈینیئلز کو مبینہ طور پر خاموشی کے لیے رقم کی ادائیگی اور اس کے لیے کاروباری ریکارڈ میں جھوٹ بولنے سے متعلق تھے۔
ٹرمپ کے وکلاء نے کئی بنیادوں پر کیس ختم کرنے کی درخواست کی تھی، جن میں سپریم کورٹ کا گزشتہ سال کا فیصلہ بھی شامل تھا، جس کے مطابق سابق امریکی صدور کو عہدے پر رہتے ہوئے کیے گئے کئی سرکاری افعال کے لیے وسیع استثنیٰ حاصل ہے۔
امریکی اخبار نے عمران خان کو خطرناک قرار دے دیا، ٹرمپ کو ان سے دور رہنے کا مشورہ
جج مرچن نے اس دلیل کو مسترد کر دیا لیکن نوٹ کیا کہ ٹرمپ صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد استثنیٰ کے حقدار ہوں گے۔ انہوں نے کہا: “کوئی
قانونی رکاوٹ نہ ہونے کے پیش نظر اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ صدر کا استثنیٰ ممکنہ طور پر عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد لاگو ہوگا، عدالت پر لازم ہے کہ سزا کا تعین 20 جنوری 2025 سے پہلے کرے۔”
ٹرمپ کے ترجمان اسٹیون چونگ نے جج مرچن کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ “سپریم کورٹ کے استثنیٰ کے فیصلے اور دیرینہ قانونی نظائر کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔”
انہوں نے بیان میں کہا: یہ غیر قانونی کیس کبھی دائر ہی نہیں ہونا چاہیے تھا اور آئین کا تقاضا ہے کہ اسے فوری طور پر ختم کر دیا جائے۔” انہوں نے مزید کہا: صدر ٹرمپ کو صدارتی منتقلی کے عمل کو جاری رکھنے اور صدارت کے اہم فرائض انجام دینے کی اجازت دی جانی چاہیے، بغیر کسی سیاسی انتقام کے۔”
چونگ نے کہا: کوئی سزا نہیں ہونی چاہیے، اور صدر ٹرمپ ان جھوٹے الزامات کے خلاف لڑتے رہیں گے جب تک کہ یہ سب ختم نہ ہو جائیں۔”
ٹرمپ کو دو وفاقی مقدمات کا بھی سامنا تھا، جنہیں خصوصی مشیر جیک اسمتھ نے دائر کیا تھا، لیکن ان دونوں مقدمات کو اس دیرینہ پالیسی کے تحت ختم کر دیا گیا کہ کسی موجودہ صدر کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔
ان مقدمات میں ٹرمپ پر 2020 کے انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کی سازش کرنے اور وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد بڑی تعداد میں خفیہ دستاویزات رکھنے کا الزام تھا۔
ٹرمپ کو جارجیا میں 2020 کے انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کی کوششوں پر بھی الزامات کا سامنا ہے، لیکن توقع ہے کہ وہ کیس ان کے صدر رہنے کے دوران معطل رہے گا۔