پنجابی، دعوت دین، اور سائیکالوجی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہمارے ہاں عام رائے یہ ہے کہ پنجابی عملی مسلمان نہیں ہوتے، ان سے دین کی بات کیجئے تو شکل پر بارہ بجا لیتے ہیں، دینداری کی نسبت سے پائے جانے والے منفی پروپیگنڈوں میں بھی یہی پیش پیش ہوتے ہیں۔ جبکہ ان کے برخلاف پختون عملی مسلمان ہوتے ہیں، دین کی بات شوق سے سنتے ہیں، ان کی مساجد بھری ہوتی ہیں، دینداری کے قدر دان ہوتے ہیں، اور ان سے دین کی بات کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ہم پٹھانوں سے متعلق رائے کو تو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن پنجابیوں سے متعلق رائے سے پوری شدت کے ساتھ اختلاف رکھتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی چیز کو ڈیل کرنے سے قبل اس کا طریقہ استعمال یا تو کسی انسٹرکٹر سے سیکھتے ہیں، یا کم از کم اس بک سے جو اس چیز کے ساتھ آئی ہوتی ہے۔ لیکن انسان واحد وجود ہے جس سے ڈیل کرنے کے لئے ہم ”طریقے” کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ انسان اور اس کی ورکنگ کیا ہے؟ یہ ہمیں علم نفسیات سے پتہ چلتا ہے۔ نفسیات صرف فرد کی نہیں بلکہ اقوام کی بھی ہوتی ہے۔ فرد اور قوم دونوں کے ساتھ بہتر ڈیلنگ صرف اس علم کی مدد سے ہی ممکن ہے۔

اب اگر آپ پنجابیوں کی نفسیات کے صرف دو پہلوؤں کو ہی پیش نظر رکھ لیں تو آپ کو دو منٹ میں اندازہ ہوجائے گا کہ اس قوم سے دین کی بات کس حکمت سے پوری کامیابی سے کی جاسکتی ہے جس کے نتائج بھی شاندار ہوں۔ پنجابی نفسیات کا پہلا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ انہیں ہمیشہ ”خارجی“ چیز پسند آتی ہے۔ یہ اپنی چیزوں کے عشق میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اپنا انہیں بس بلھے شاہ اور ساگ ہی پسند ہے۔ انہیں مغربی کلچر میں جو کشش محسوس ہوتی ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ انہوں نے مغربی کلچر کے کوئی بیش بہا فوائد سمیٹ رکھے ہیں۔ انہیں بس وہ اس لئے پسند ہے کہ وہ ”فارن“ ہے۔ جانتے ہیں اس کا مطلب کیا ہوا ؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اور ان کا لایا ہوا دین بھی ”پنجابی” نہیں، فارن ہے۔ لہٰذا اس بات کا پورا پورا امکان موجود ہے کہ پنجابی اسے دل و جان سے قبول کرلیں۔

اب سوال یہ آجاتا ہے کہ پھر یہ اس کی طرف رغبت کیوں نہیں رکھتے؟ اس سوال کا جواب پنجابی نفسیات کے دوسرے قابل غور نکتے میں ہے۔ پنجابی نفسیات کا دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ پنجابی طبعاً جنگ اور ہنگامہ آرائی سے دور رہنے والی قوم ہے۔ ہماری وہ تحریر تو آپ کو یاد ہوگی جس میں ہم نے آپ سے عرض کیا تھا کہ افغان حملہ آور جب بھی آئے، دہلی پر حملے کے لئے آئے۔ بیچ میں پورا پنجاب ان کے ایجنڈے پر ہی نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ پنجابی لڑتے ہی نہیں تھے۔ وہ تو کہتے تھے کہ بھئی حکومت چاہئے تو جاکر تختِ لاہور پر بیٹھ جاؤ، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ادھر پنجابی بیٹھا ہے یا پٹھان۔ لیکن خبردار جو ہمارا خون بہایا، ہمارے کھیت برباد کئے، ہمارا شہر تاراج کیا، یا ہماری املاک کو نقصان پہنچایا۔ ذرا سوچئے ناں اتنا تو مغلوں نے دہلی میں کچھ نہیں بنایا جتنا لاہور میں بنا رکھا ہے۔ دہلی کی جب بھی بات ہوتی ہے تو بس قلعے، اور شاہی مسجد کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ شاہی مسجد اور قلعہ تو لاہور میں بھی ہے۔ لیکن صرف یہی نہیں، کامران کی بارہ دری، باغات، اور چوبرجی والے گنبدوں سمیت پتہ نہیں اور کیا کیا ہے لاہور میں۔

مغلوں نے سارے تفریحی خرچے لاہور میں ہی کر رکھے تھے۔ کیوں؟ کیونکہ تفریح پر امن مقام پر ہی ممکن ہے۔ اور پنجابیوں کو لڑائی سے اتنی چڑ تھی کہ اپنی طرف سے ہی آگے چل کر گھڑ لیا:

”اسلام امن کا مذہب ہے۔”

آپ نے کبھی بھی ہمارے قلم سے یہ جملہ دیکھا ؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کیونکہ ہم پختون ہیں اور پختون نفسیات یہ ہے کہ یہ اللہ سے تگڑا سا دشمن مانگتے ہیں، اور یہ دعاء قبول نہ ہو تو پھر کسی اپنے کو ہی دشمن کے مقام پر فائز کرکے ساری زندگی اس سے لڑتے رہتے ہیں۔

اسلام سے پنجابی وابستگی رکھتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جس اسلام کا وہ پرستار ہے وہ مذہب کم، ڈھکوسلہ زیادہ ہے۔ ہم ”صوفی اسلام“ کی بات کر رہے ہیں۔ پنجابیوں نے اسے دین کے طور پر ہی قبول کر رکھا ہے۔ اور قبول کرنے کی وجہ فقط یہ ہے کہ صوفی اسلام جنگ کی “تنسیخ” ہے۔ چنانچہ پنجابی جس سانس میں صوفی اسلام سے اپنی وابستگی جتاتے ہیں اسی سانس میں ان کا اگلا جملہ یہ ہوتا ہے

“اسلام صوفیاء کرا م کی پرامن دعوت سے پھیلا ہے”

پر امن لفظ پر غور کیا؟ بس یہی صوفی اسلام کو پسند کرنے کی اصل وجہ ہے۔

کسی بھی قوم کی نفسیات کو سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے ریفرنسز یعنی حوالے نوٹ کئے جائیں۔ اگر آپ پٹھانوں کی لوک کہانیاں یا عام بول چال سنیں تو ان کے سارے قدیمی حوالے جنگ و جدل کے ہوں گے۔ حتٰی کہ ان کے باپ دادا کے بھی قابل فخر کارنامے یہ ہوتے ہیں کہ ان میں سے کس کس نے کتنے کتنے دشمن قتل کئے تھے۔

پنجابیوں کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے سارے حوالے “آرٹ اور رومانس” کے گرد گھومتے ہیں۔ اور آرٹ کی یہ قوم اتنی دلدادہ ہے کہ مسلمانوں میں سے واحد قوم ہے جس کا خطیب بھی مترنم ہوتا ہے۔ پوری دنیا کے موسیقار اس بات پر متفق ہیں کہ ترنم کے لئے لازم ہے کہ کلام شاعرانہ ہو۔ نثری کلام پر علم موسیقی اپلائی ہی نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ کارنامہ صرف پنجابیوں نے کرکے دکھایا ہے کہ ان کا خطیب علم موسیقی تقریر پر بھی اپلائی کرکے دکھا دیتا ہے۔ پھر ترنم سے ان کی دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے گائیکی کی ایک قسم کو باقاعدہ مذہبی جامہ بھی اوڑھا دیا ہے۔ یہ قوالی عبادت کی نیت سے ہی سنتے ہیں۔

سو جانِ عزیز ! ہمارے اس عہد میں دعوتِ دین کا اسلوب ہی بس یہ رہ گیا ہے کہ ہم غزوات اور قربانیوں کے بغیر دین کی کوئی بات کر ہی نہیں پاتے۔ اور یہ وہ چیز ہے جس سے پنجابیوں کو ٹینشن ہوتی ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگوں کو سیرت کا کچھ بھی پتہ نہیں۔ لیکن غزوات اور ان کی تفاصیل ہم نے ساری رٹ رکھی ہیں۔ اچھا طرح سمجھ لیجئے کہ پنجابی کو اسلام سے متاثر کرنا ہے تو اس کی یہی ایک صورت ہے کہ اس کے سامنے کتاب الجہاد مت کھولئے۔ اسے تو امن کے قصے سنایئے، چاہے من گھڑت ہی کیوں نہ ہوں۔ کتاب الجہاد خیبر پختونخوا میں کھولئے، وہاں امن کے قصے سنائیں گے تو بڑا پٹھان چھوٹے پٹھان کے کان میں سرگوشی کرے گا

“دا سڑے ماتہ سہ بے غیرتا خکاری”

ترجمہ: یہ بندہ مجھے بے غیرت لگتا ہے

Related Posts