آج عالمی دنِ انسداد منشیات کے موقع پر پاکستان میں ایک سنگین مسئلے کا تجزیہ ضروری ہے، جہاں منشیات کا استعمال بے قابو حد تک بڑھ چکا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 6.7 ملین پاکستانی نشہ آور مادوں کے مستقل صارف ہیں، جن میں چرس، ویڈ، آئس اور ہیروئن زور پکڑ رہی ہے ۔ طلبہ اور نوجوان طبقے خصوصاً خطرے کی زد میں ہیں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں نشہ عام ہوتا جا رہا ہے جبکہ تعلیمی ادارے ایسے واقعات کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں ۔
پنجاب اور اسلام آباد جیسے شہروں میں سستا اور آسان نشہ، خاص طور پر چرس، نوجوانوں کے لیے عام ہو چکا ہے ۔ پنجاب میں انجیکشن کے ذریعے نشہ کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ کر آدھے ملین ہو گئی، جس کے نتیجے میں HIV اور ہپاتائٹس C کے کیسز بڑھنے کا خطرہ لاحق ہے ۔
سڑک پر رہنے والے بچے بھی نشہ کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد میں ایک سروے کے مطابق 16 سے 18 سال کے 37 فیصد سٹریٹ چلڈرن نے بھنگ، نشہ آور اشیاء جیسی چیزوں کا استعمال کر رکھا ہے ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کم عمر بچوں میں نشے کی لت کس حد تک گھس چکی ہے۔
اس بحران کے پیچھے کئی عوامل ہیں جس میں بے روزگاری، گھریلو مسائل، رہنمائی کا فقدان، سستی نشہ آور اشیاء، اور نشہ فروشوں کی مداخلت ۔ نجی طبیبوں اور لائسنس کے بغیر فراہم کی جانے والی دوائیں بھی اس وبا کو تیز کررہی ہیں۔
اگرچہ حکومت نے کچھ اقدامات کیے ہیں مثلاً 237 یونیورسٹیوں میں آگاہی مہم، 140 کلو گرام منشیات ضبط، اور یونیورسٹیوں سے ڈرگ نیٹ ورکس کی شناخت تاہم 2023 سے 735 افراد گرفتار ہوئے، لیکن اعداد و شمار اور تحقیقی بنیاد کمزور ہیں ۔
سرکاری ہسپتالوں میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی کثیر تعداد داخل ہوتی ہے، اور اکثر انہیں ابتدائی طبی مدد کے بعد دوبارہ معاشرے میں جانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، جس سے مسئلہ پھیلتا رہتا ہے ۔
علاج کے مقامات نہ ہونے کے برابر ہیں؛ صرف سات بڑے شہروں میں محدود بحالی مراکز موجود ہیں، جبکہ ضرورت لاکھوں افراد کی ہے ۔ اس کے نتیجے میں نشہ آور افراد غیر محفوظ ماحول میں رہتے ہیں، دوبارہ نشہ شروع کرنے اور بیماریوں کے بڑھنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
حل کے لیے لازم ہے کہ ملک گیر سطح پر نشے کے خلاف مہم چلائی جائے، اساتذہ، والدین، اور طلبہ کو تربیت دی جائے، نشہ مفت ہسپتالوں میں علاج اور بحالی کے مراکز قائم کیے جائیں، اور غیر قانونی دوائیوں کے سپلائرز کی گرفت و سزا یقینی بنائی جائے۔ اعداد و شمار پر مبنی پالیسیاں مرتب کرکے نوجوانوں کو اس بحران سے بچایا جا سکتا ہے۔
اگرچہ چیلنجز بہت ہیں، مگر عالمی دنِ انسداد منشیات پر یہ عزم ٹوٹے نہ کہ مضبوط ہونی چاہیے کہ پاکستان منشیات کی لعنت سے آزاد ہوگا، اور اس کے نوجوان صحت مند اور محفوظ مستقبل کی طرف گامزن رہیں گے۔