اسلام آباد:صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں گزشتہ سات دہائیوں کے دوران جتنے بھی نام نہاد انتخابات ہوئے وہ سب جعلی تھے، جن میں دہلی سرکار نے دھاندلی کرتے ہوئے ہمیشہ کٹھ پتلی حکومتیں بنائیں۔ جبکہ آزادکشمیر میں جمہوری ادارے مستحکم ہیں اور یہاں جمہوری قدریں انتہائی توانا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو تمام بنیادی آزادیاں میسر ہیں اور یہاں انسانی حقوق کی مکمل پاسداری کی جاتی ہے۔ صدر نے مزید کہا کہ بھارت نے ہمیشہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی وفادار سیاسی کلاس پیدا کی اور اس کی شروعات1950میں شیخ عبداللہ سے کی۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں 75نشستیں مختص کیں گئیں تھیں اور ان ساری نشستوں کے امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے تھے۔
صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ ہندوستان نے ان جعلی انتخابات کا ڈھونگ 2018تک رچائے رکھا، لیکن پھر انہوں نے پھر2018میں محبوبہ مفتی کی حکومت کو فارغ کر دیا اور نام نہاد جمہوری بساط کو لپیٹ دیا۔ انہوں نے کہا کہ جو تھوڑا بہت پردہ رہ گیا تھا اسے پانچ اگست2019کے اقدامات کے ذریعے چاک کر دیا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے دو یونین ٹریٹریز میں منقسم کر دیا، جنہیں دہلی کے براہ راست ماتحت بنا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں سے مشورہ کرنا تو درکنار اپنے حواریوں اور حلیفوں سے پوچھے بغیر اٹھایا اور کشمیر کو ایک نو آبادیات میں تبدیل کر دیا۔ لداخ کاسرے سے جمہوری کریکٹر ہی ہی ختم کر دیا گیا، جبکہ جموں وکشمیر جسے دہلی سرکار کے براہ راست کنٹرول میں کیا گیا ہے۔ بعد میں یہاں نام نہاد اسمبلی قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ یہ ہندوستانی اقدامات دراصل کشمیریوں سے اُن کی شہریت، زمین اور روزگار چھیننے کے لئے اٹھائے گے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نئے ڈومیسائل قانون کے تحت اب کشمیریوں کو اپنی شہریت ثابت کرنا پڑ رہی ہے اور اُن کے کاروبار زمینوں اور ملازمتوں پر ڈاکہ زنی کی گئی ہے، الغرض وہاں فسطائیت کا دور دورہ ہے۔
لداخ پر چین اور بھارت کے درمیان چپقلش پر پوچھے گے سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ لداخ پر ہندوستان کی سفارتی تنہائی نمایاں ہو گئی ہے۔ اگرچہ امریکہ اس کا قریبی حلیف ہے لیکن اس نے بھی بڑھ چڑھ کر اس کی مذمت نہیں کی اور بے دلی سے چین بھارت کے درمیان اس مسئلے پر صرف ثالثی کی پیشکش کی، جسے چین نے ٹھکرا دیا۔ یہ پیشکش بالکل ایسے ہی تھی جیسے امریکہ اور میکسیکو کے درمیان کوئی مسئلہ پیدا ہو تو چین یہ پیشکش کرے کہ وہ ثالثی کے لئے تیار ہے تو یقینی طور پر امریکہ اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوئے مسترد کر دے گا۔
صدر نے کہا کہ بھارت کے حق میں یورپ، آسٹریلیا اور جاپان جیسے حلیفوں کی طرف سے بھی کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ BRIکے تحت پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کو روکنے کے لئے جو چار رکنی اتحاد بنا ہوا ہے جس میں امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور ہندوستان شامل ہیں اسQuad نے بھی اس کی کوئی حمایت نہیں کی۔