بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات، کیا پاکستان خواتین کیلئے محفوظ ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات، کیا پاکستان خواتین کیلئے محفوظ ہے؟
بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات، کیا پاکستان خواتین کیلئے محفوظ ہے؟

ملک بھر میں زیادتی کے واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد نے اس بحث کو جنم دیا ہے کہ جنسی زیادتی اور عصمت دری میں تیزی سے اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔

جمعرات کے روز پولیس نے پنجاب کے ٹوبہ ٹیک سنگھ ضلع کے گوجرہ شہر کے قریب M-4 موٹروے پر 18 سالہ خاتون سے مبینہ زیادتی کے الزام میں ملوث تین ملزمان میں سے ایک مرکزی ملزم کو گرفتار کیا ہے۔

جبکہ ایک مشہور زمانہ واقعہ گزشتہ سال لاہور سے سیالکوٹ جانے والے موٹروے پر پیش آیا تھا، جس میں ایک خاتون کو اس کے بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں صنف پر مبنی تشدد کب ختم ہوگا اور یہ کیوں بڑھ رہا ہے؟

ٹوبہ ٹیک سنگھ کا واقعہ

فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق، متاثرہ لڑکی کی خالہ نے پولیس کو بتایا کہ اس کی بھتیجی کو اس کے موبائل فون پر ایک پیغام موصول ہوا، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ پیر کی دوپہر ڈھائی بجے گوجرہ میں کسی مقام پر پہنچ کر نوکری کے لئے انٹرویو پر جائے گی۔

شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ جب وہ اور اس کی بھانجی اس مقام پر پہنچے تو ملزمان نے ان سے کہا کہ وہ متاثرہ کو ان کے ساتھ انٹرویو کے لیے فیصل آباد بھیجیں۔

سفر کے دوران دو ملزمان نے متاثرہ خاتون کو بندوق کی نوک پر دو بار زیادتی کا نشانہ بنایا، یہ واقع M4 موٹروے پر فیصل آباد جاتے ہوئے پیش آیا۔ ملزمان نے بعد ازاں نوعمر لڑکی کو فیصل آباد انٹر چینج کے قریب ویران جگہ پر چھوڑ دیا اور فرار ہو گئے۔

جھوٹے دلائل:

ہمارے معاشرے میں خواتین پر ہی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہیں اپنے گھروں کی چار دیواری میں رہنا چاہئے، تاکہ ان کے خلاف ہونے والی عصمت دری، جنسی زیادتی یا ہراسانی کو روکا جا سکے۔

ایک اور بے بنیاد دلیل یہ ہے کہ نام نہاد مغربی طرز زندگی اور انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن پر فحش مواد کی نمائش جنسی جرائم میں تیزی سے اضافے کے لیے ذمہ دار ہے۔ گویا ان پلیٹ فارمز تک رسائی سے انکار ہمارے معاشرے میں جنسی جرائم کا خاتمہ کر دے گا۔

ایسی غلط فہمیاں کیسے دور کی جائیں:

یہ غلط فہمیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک ہم یہ نہ سمجھ لیں کہ جنسی جرائم کا تعلق جنسی ہوس سے نہیں ہے، ماہرین نفسیات اور ماہرین معاشیات کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جنسی جرائم کا ارتکاب طاقت کے زور پر کیا جاتا ہے، ان جرائم کے مرتکب افراد اپنے نام نہاد مردانہ اختیار کو ثابت کرنے کے لیے ایسے جرائم کرتے ہیں۔

اگر ہم متاثرین کو مورد الزام ٹھہراتے رہیں اور جنسی جرائم کی ذمہ داری نام نہاد فحاشی کے ذرائع پر ڈال دیں تو اس سے ایسے جرائم میں اضافہ ہی ہوگا۔ عصمت دری کے واقعات کسی ایک شخص یا خاتون کو متاثر نہیں کرتے بلکہ اس کی لپیٹ میں پورا خاندان آتا ہے اور اس کا اثر آنے والی نسلوں تک پر پڑتا ہے۔

شعور کی کمی:

عقل و شعور اور بیداری کی کمی اس مسئلے کو دور کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،کیونکہ جنسی تعلیم سے اکثر گریز کیا جاتا ہے، خاص طور پر نابالغوں کے لیے۔ مزید برآں، بہت سے لوگ قانونی طریقہ کار سے بھی لاعلم ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ عصمت دری کے متاثرین کے لیے خصوصی اقدامات کئے جائیں۔ خواتین کے حقوق اور جنسی تعلیم کے حوالے سے میڈیا مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے، جس میں یہ بتایا جائے کہ والدین اپنے چھوٹے بچوں اور خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

پرائمری اور سیکنڈری سطح پر صنفی مطالعات کے حوالے سے ایک الگ موضوع متعارف کرانا بھی ضروری ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ صنف سے متعلقہ مسائل کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان مسائل کو تعلیم کے لئے کم کیا جاسکے۔

Related Posts