عرب دنیا میں نام نہاد “گریٹرغزہ” منصوبے کے بارے میں حال ہی میں کافی باتیں سامنے آنے کے بعد سرکاری اور عوامی سطح پر انتباہات جاری کیے گئے ہیں۔ فلسطینی اور مصری دونوں حلقے اس طرح کے منصوبے کے خطرے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔
ان انتباہات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب چند روز قبل اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کی جانب سے اسرائیلی آرمی ریڈیو پر تصدیق کی گئی کہ اس جنگ کے اختتام پر نہ صرف غزہ میں حماس کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ غزہ کا رقبہ بھی کم ہو جائے گا۔ اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلانٹ نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان کا ملک غزہ میں سکیورٹی کی ایک نئی حقیقت تشکیل دے گا۔
سائنس کی دنیا میں اہم پیشرفت، آکسیجن پیدا کرنے والا پینٹ متعارف
دریں اثنا مصری صدر عبد الفتاح السیسی اور فلسطینی صدر محمود عباس نے اپنے بیانات میں گنجان آباد غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے اور سینا میں بھیجنے کے اسرائیلی منصوبے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ یاد رہے غزہ میں 365 مربع کلومیٹر کے رقبہ پر لگ بھگ 2.3 ملین لوگ آباد ہیں۔ آئیے جانتے ہیں اسرائیل کا یہ منصوبہ کیا ہے اور اس سے فلسطینیوں کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟
اسرائیل کا منصوبہ کیا ہے؟
اسرائیل کا منصوبہ یہ ہے کہ غزہ کی پٹی کے رقبے کو کم کردیا جائے، اس کا مقصد غزہ کی سرحدوں کو اسرائیلی قصبوں اور اس کے قریب آباد یہودی بستیوں سے الگ کرنے کے لیے ایک بفر زون بنانا ہے تاکہ ان قصبوں کو مزید تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
سات اکتوبر کو غزہ کی پٹی سے ملحق اسرائیلی بستیوں پر حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی آبادیوں کو تحفظ دینے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ غزہ کی پٹی سے حملہ کرنے والے حماس کے جنگجو مغربی کنارے سے تقریبا 10 کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ گئے تھے۔
غزہ کی پٹی کے شمالی حصے اور مغربی کنارے کے درمیان فاصلہ کم ہے۔ اس اعتبار سے اسرائیل غزہ کی پٹی کے شمالی حصے کو اپنے زیر نگین لانے کا خواہاں ہے۔
پرانا پروجیکٹ
اس تناظر میں مصری صحافی اور مصنف مصطفی بکری نے تصدیق کی کہ جو چیز اب تجویز کی جارہی ہے یہ ایک پرانا منصوبہ ہے جو اس سے قبل 2004 میں اس وقت کے اسرائیلی قومی سلامتی کے مشیر جیورا آئلینڈ نے پیش کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت غزہ میں ایک “عظیم تر ریاست” کو قائم کرنا ہے۔ اس منصوبے کے تحت غزہ کا ایک علاقہ اسرائیل کے لیے مختص کیا گیا ہے اور مصر کا سینا کا کچھ علاقہ غزہ کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ اس منصوبے میں 600 مربع کلومیٹر سینا کو غزہ سے منسلک کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ اسرائیل کا مقصد اب غزہ کے مکینوں کی جبری نقل مکانی کے ذریعے فلسطینی مصری مسئلہ پیدا کرنا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست اسرائیلی بستیوں اور غزہ کے سرحدی علاقے کے درمیان بفر زون چاہتی ہے۔
یاد رہے کہ اس منصوبے کے مطابق جیورا آئیلینڈ نے مصر کو ایلات شہر کے شمال مغرب میں صحرائے نقب کے 200 مربع کلومیٹر کا رقبہ بطور معاوضہ دینے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس طرح یہ منصوبہ مصر اور اردن کو ملانے اور اقتصادی فوائد حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی، اسرائیلی اور یورپی کوششیں جاری ہیں کہ قاہرہ پر دباؤ ڈال کر فلسطینیوں کو سینا میں منتقل کیا جائے۔ یہ مسئلہ مصریوں کے لیے سرخ لکیر ہے اور خطے میں کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔
اسرائیلی کھیل
اسی تناظر میں مصری ادیب اور مفکر فہمی ھویدی کا خیال ہے کہ اسرائیل تاریخ، سچائی اور خطے کے خلاف جو بھی کھیل اور الزامات چاہتا ہے اس کی مشق کر رہا ہے۔ اسرائیل اپنی میڈیا صلاحیتوں میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے نئے حقائق پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خاص طور پر غزہ کی پٹی کے جغرافیہ، اس کے رقبے، اس کی آبادی کی نقل مکانی اور غزہ میں ایک نئی حقیقت کو مسلط کرنے کے حوالے سے اس کی کوشش جاری ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ غزہ کی پٹی کا رقبہ 555 مربع کلومیٹر تھا جسے بعد میں کم کر کے 365 مربع کلومیٹر کر دیا گیا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل غزہ کے رقبے کو کم کرنے کے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے حق میں بین الاقوامی صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ یہ تمام منصوبے ناکام ہو جائیں گے۔ مصر کی طرف سے ان منصوبوں کی واضح تردید کی روشنی میں ایسے منصوبوں کا کامیاب ہونا ممکن نہیں۔