شیخوپورہ میں پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کا ہولناک انجام! سرعام تشدد کی وائرل ویڈیو

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
پینشن نہیں، پوزیشن؛ سینئر پروفیشنلز کو ورک فورس میں رکھنے کی ضرورت
Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Girl Beaten in Sheikhupura Court for Love Marriage, Shocking Videos Go Viral
ONLINE

بلوچستان میں جرگے کے حکم پر ایک جوڑے کو بےدردی سے قتل کیے جانے کے واقعے کے بعد شیخوپورہ میں ایک لڑکی پر سرعام تشدد کی ویڈیو سامنے پر معاشرے میں عدم برداشت اور خودمختاری کے خلاف پرتشدد رویے پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

شیخوپورہ کی کچہری میں پیش آنے والے اس افسوسناک واقعے میں ایک لڑکی جس نے اپنی مرضی سے نکاح کیا تھا، کو نہ صرف سرِعام بدسلوکی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اسے زبردستی اپنا بیان تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکی نکاح کے وقت مکمل ہوش و حواس میں، اپنی آزاد مرضی سے نکاح کر رہی ہے، اور اس کے ساتھ کسی بھی قسم کا دباؤ یا جبر نہیں تھا۔

گوکہ یہ ویڈیو پرانی ہے تاہم اطلاعات کے مطابق لڑکی پر نہ صرف خاندان بلکہ بااثر افراد کی جانب سے شدید دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ عدالت میں اپنا بیان واپس لے اور اپنے شوہر کے خلاف بیان دے۔

 

ویڈیو میں لڑکی کی آنکھوں میں خوف اور بےبسی صاف جھلکتی ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسے معاشرتی اور خاندانی دباؤ کا سامنا ہے اور اپنی عزت و جان بچانے کے لیے وہ سچ سے ہٹنے پر مجبور ہو رہی ہے۔

یہ واقعہ نہ صرف ایک لڑکی کی ذاتی آزادی پر حملہ ہے بلکہ یہ ریاستی اداروں، عدالتوں اور معاشرتی انصاف پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔

اگر عدالتوں کے اندر، کچہری جیسے محفوظ مقامات پر اس طرح کی بدسلوکی اور دھونس ہو سکتی ہے تو ایک عام فرد کے لیے انصاف حاصل کرنا کس قدر دشوار ہوگا؟

بلوچستان میں چند روز قبل ایک نوجوان جوڑے کو ایک مقامی جرگے کے حکم پر قتل کر دیا گیا تھا جس پر ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔

اب شیخوپورہ جیسے واقعات اس تشویش کو مزید گہرا کر رہے ہیں کہ پاکستان میں عورت کی مرضی اور خودمختاری کو نہ صرف مسترد کیا جا رہا ہے بلکہ اس کے خلاف کھلم کھلا تشدد کیا جا رہا ہے۔

ان واقعات نے انسانی حقوق کے کارکنان، سول سوسائٹی اور باشعور شہریوں کو ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا پاکستان میں ایک لڑکی کو اپنی پسند سے شادی کرنے، جینے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا حق حاصل ہے؟ یا پھر یہ معاشرہ آج بھی عورت کی مرضی کو جرم سمجھتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست ایسے تمام واقعات پر فوری اور سخت کارروائی کرے، متاثرہ لڑکیوں کو تحفظ دے، اور ایسے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے جو عورتوں کی آزاد مرضی کو دبانے کے لیے تشدد، دباؤ اور خوف و ہراس کو ہتھیار بناتے ہیں۔

Related Posts