نصیر آباد کی زندہ دفنائی گئی بیٹیوں سے شیتل تک؛ ریاست جاگے گی یا انصاف دفن ہوگا؟

مقبول خبریں

کالمز

Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟
zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

(فوٹو؛ فائل)

بلوچستان میں ایک اور دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا ہے۔ شیتل نامی لڑکی کو صرف اس لیے قتل کر دیا گیا کہ اس نے اپنی پسند کی شادی کا فیصلہ کیا۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک انسانی المیہ ہے بلکہ ریاست کی کمزوریوں اور ناکامیوں کا ایک واضح ثبوت بھی ہے۔

حکومتی اداروں نے روایتی بیانات جاری کیے، سخت کارروائی کے وعدے دہرائے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ وعدے کبھی پورے ہوں گے؟ کیا شیتل کو انصاف ملے گا یا یہ کیس بھی ماضی کی طرح عدالتی فائلوں میں گم ہو جائے گا؟

کیا یہ وہی ریاست نہیں جو 2008 میں نصیرآباد کی پانچ لڑکیوں کو زندہ دفن ہونے سے نہ بچا سکی؟ اور بعد میں ان کے لواحقین کو بھی انصاف فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہی؟ اگست 2008 میں بلوچستان کے ضلع نصیرآباد کے علاقے بابا کوٹ میں پانچ نوجوان خواتین کو، جنہوں نے اپنی پسند کی شادی کا ارادہ ظاہر کیا، زندہ دفن کر دیا گیا۔

یہ وحشیانہ فعل قومی میڈیا کی زینت بنا، انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا اور سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس بھی لیا مگر نتیجہ کیا نکلا؟ صرف دو لاشیں برآمد ہوئیں، پوسٹ مارٹم رپورٹس منظر عام پر آئیں لیکن اصل مجرم آج تک قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ 17 سال گزر جانے کے باوجود یہ کیس عدالتی نظام کی ناکامی کی ایک علامت بنا ہوا ہے

شیتل کے قتل نے ایک بار پھر بلوچستان میں خواتین کے تحفظ اور انصاف کے نظام پر سوالات اٹھائے ہیں۔ حکومتی دعوؤں کے مطابق قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا لیکن ماضی کے تجربات ان وعدوں کی کھوکھلی حقیقت کو عیاں کرتے ہیں۔ نصیرآباد کی پانچ بیٹیوں کے کیس کی طرح شیتل کا کیس بھی محض ایک اور فائل بن کر رہ جائے گا، یا اس بار ریاست واقعی اپنی ذمہ داری پوری کرے گی؟

یہ افسوسناک واقعہ صرف ایک لڑکی کے قتل کی کہانی نہیں، بلکہ ایک ایسی سماجی اور ریاستی ناکامی کی داستان ہے جو خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھتی ہے۔ شیتل کی موت اس معاشرے کی عکاسی کرتی ہے جہاں عورت کی آواز کو دبانے کے لیے تشدد کو ہتھیار بنایا جاتا ہے، اور اس ریاست کی جو اس تشدد کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہتی ہے۔

شیتل کا قتل ایک امتحان ہے یہ ریاست کے لیے ایک موقع بھی ہے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے لیکن اگر ماضی کوئی عندیہ دیتا ہے، تو یہ خدشہ موجود ہے کہ شیتل کا نام بھی نصیرآباد کی پانچ بیٹیوں کی طرح تاریخ کی فائلوں میں گم ہو جائے گا۔

ریاست کو اب بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ خواتین کے تحفظ کے لیے سخت قوانین، فوری اور شفاف تحقیقات، اور مجرموں کو سزا دینے کا عزم ناگزیر ہے۔ اگر شیتل کو انصاف نہ ملا، تو یہ نہ صرف اس کی موت کا المیہ ہوگا بلکہ ریاست کی ساکھ کا ایک اور زوال بھی۔

شیتل کے قتل اور نصیرآباد کی پانچ بیٹیوں کے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے، ریاست کو نہ صرف انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا بلکہ اس سماجی سوچ کو تبدیل کرنے کے لیے بھی کام کرنا ہوگا جو خواتین کو ان کے حقوق سے محروم رکھتی ہے۔ تعلیمی اور سماجی اصلاحات، خواتین کے تحفظ کے لیے خصوصی یونٹس، اور عدالتی نظام میں شفافیت وقت کی اہم ضرورت ہے۔

شیتل کی لاش اب خاموش ہے لیکن اس کی آواز کو انصاف کے ذریعے زندہ کیا جا سکتا ہے۔ کیا ریاست اس بار تاریخ بدلے گی، یا ماضی کی طرح خاموشی سے ایک اور وعدہ توڑ دے گی؟ وقت ہی اس کا فیصلہ کرے گا۔

Related Posts