کراچی پروفاق کا کنٹرول

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

این ڈی ایم این اے کی کراچی آمد کا شہریوں نے خیر مقدم کیا ہے اور کراچی کو مکمل وفاق کے کنٹرول میں لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے تو دوسری طرف سندھ کی سیاسی جماعتوں کو اپنی بادشاہت خطرے میں دکھائی دینے لگی ہے اور انہوں نے دبے لفظوںمیں اس پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دی ہے۔

یہ کراچی کے محروم و مظلوم شہری جب سندھ حکومت سے کراچی نہیں سنبھل رہا ہے تو اس بین الاقوامی شہر کا بیڑا غرق کرنے اور اس معاشی حب کوبرباد ہونے سے بچانے کے لیے اس شہر کےڈھائی کروڑ عوام کو ان کے بنیادی و انسانی حقوق فراہم کرنے کے لیےکراچی کے عوام وفاق کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

گزشتہ 13 سال سے سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے مگر یہاں نہ تو کراچی کے شہریوں کو حق حکمرانی میسر ہے نہ ہی بنیادی حقوق فراہم کیے جا رہے ہیں، پورے سندھ پر اکثریت کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی حکمرانی ہے تو سندھ کے بڑے شہروں کے بلدیاتی اداروں میں متحدہ قومی موومنٹ کو اقتدار ملتا رہا ہے ۔

سوائے ناظمین کے پہلے دور میں جب ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے باعث جماعت اسلامی کو بلدیاتی اداروں میں اقتدار ملا تھا،بلدیاتی اداروں میں جماعت اسلامی کے دور میں بھی شہر وںخصوصاََ کراچی میں ترقی ہوئی اور اسکے بعد دوبارہ ایم کیو ایم کے ناظمین بھاری اکثریت کے ساتھ آئے ، یہ دور سابق صدر پرویز مشرف کا تھا اور اس دور میں وفاقی حکومت نے کراچی کے لیے خصوصی مالیاتی پیکیج دیئے جس سے ان ناظمین نے کراچی کو نا صرف خوبصورت بنایا بلکہ ایک مربوط نظام دیا جس میں کچرا بھی اٹھتا تھا اور برساتی نالے بھی صاف ہوتے تھے۔

سڑکیں ، پل ، انڈر پاس، بھی بنے ، واٹر بورڈ ان دنوں کراچی شہری حکومت کے کنٹرول ( اختیار ) میں تھا تو شہر میں نئی سیوریج لائنیں ڈالی گئیں، پینے کے پانی کے لیے نئے منصوبے کے تھری کی منظوری کے ساتھ اسی 4 سالہ دور میں اس کی تکمیل بھی ہوئی جو ریکارڈ مدت میں ایک بڑا منصوبہ تھا جسے ایم کیو ایم کے نظم مصطفیٰ کمال نے اپنی پارٹی کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مکمل کرایا اور اس میں بڑا کردار سابق صدر جنرل ( ر) پرویز مشرف کا ہے جنہوں نے فنڈ ز کی فراہمی کے لیے کوئی کمی نہ چھوڑی ۔

بروقت فنڈز ملنے کے باعث یہ منصوبہ ریکارڈ مدت میں مکمل کیا گیا ، اس کی تکمیل سے قبل ہی کراچی کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اور پانی کی فراہمی کا بڑا منصوبہ کے فورکی اسٹیڈی مکمل کر کے اس کی بھی منظوری دے دی گئی تھی تاہم سابق صدر پرویز مشرف کے جاتے ہی کراچی لاوارث سا ہو گیا اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو 12 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر پیپلز پارٹی نے کبھی مسائل کو سنجیدہ نہیں لیا ، فنڈز روکے گئے ، ماہانہ او زیڈ ٹی شیئر میں سالانہ قانونی اضافہ روک دیا گیا اور کئی سال سےاس میں ٹال مٹول سے کام لیا جا رہاہے۔

بعض ذرائع کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے یہ پالیسی بنا لی ہے کہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات چھین کر اور فنڈز روک کر ہی ایم کیو ایم کی ساکھ متاثر کی جا سکتی ہے مگر وہ شاید یہ بھول گئے کہ کراچی کے عوام کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ، کام نہ کرنے پر اب لوگ جب کہ ایم کیو ایم سے بد ظن ہیں تو اس کا ذمہ دار پیپلز پارٹی کو ہی گردانتے ہیں کیو ں کہ پیپلز پارٹی نے اپنا سیاسی کھیل کھیل کر شہر کے ڈھائی کروڑ عوام کو مصیبت میں مبتلا کر دیا ہے۔

رہی سہی کسر سندھ حکومت نے آمدن کا ذریعہ بننے والے اداروں پر قبضہ کرکے پوری کردی، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر قبضہ کر کے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنادیا گیا، ماسٹر پلان پر قبضہ کر لیا ، پراپرٹی ٹیکس میں بھی ڈنڈی ماردی جاتی ہے، اس صورتحال کے باعث بلدیاتی ادارے شہریوں کے مسائل حل نہیں کر پا رہے ، اور شہری اس صورتھال سے اس قدر خائف ہیں کہ وہ وفاق کو پکارنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے 18 ویں ترمیم کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے اور کراچی کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ اس کا دم گھٹنے لگا ہے ، ان محرومیوں اور مایوسیوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگ وفاق سے بھیجی گئی فوج کا خیر مقدم کر رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ کراچی قیام پاکستان کے بعد وفاق کا حصہ تھا اس لیے اسے وفاق اپنی تحویل میں لے، میری اس بات سے بہت سے لوگوں کے پیٹ میں مروڑ ہو رہی ہوگی مگر یہ مروڑ اس وقت کیوں نہیں ہوتی جب پیپلز پارٹی سندھ کے شہری علاقوں کے حقوق چھین کر شہریوں کو محرومیوں اورمایوسیوں کی طرف دھکیل رہی ہوتی ہے۔

اگر یہ لوگ اس وقت تعصب سے بالا تر ہو کر سندھ کے شہری علاقوں کے حقوق کی بات کریں او دانشور شہری علاقوں کے چھینے گئے حقوق پر آواز اٹھائیں تو پھر شہری علاقوں میں یہ سوچ کبھی جنم نہ لے اور انہیں ایک حوصلہ ملے مگر نہ جانے سندھ کے دانشوروں کو شہری علاقوں پر پی پی کہ ڈاکہ زنی میں کیا مزا آرہا ہوتا ہے کہ وہ خاموش تماشائی بن جاتے ہیں اور جب مایوس شہری علیحدہ صوبے یا وفاق کے مداخلت کی بات کرتے ہیں تو دانشوروں کو کی انا جاگ جاتی ہے مگر اب کیا فائدہ اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے۔

اب کراچی کے ڈھائی کروڑ عوام کی فریاد پر فوج نے کراچی کو سنبھالنے کا کام صفائی سے شروع کیا ہے ، یہ صفائی کا لفظ سمجھنے کی ضرورت ہے ،اس صفائی سے بہت سی گند گی صاف ہونے کا امکان ہے اور شہریوں کو بنیادی بلدیاتی چھینے گئے حقوق ملنے کا امکان ہے۔

کراچی کو وفاق کے حوالے کرنے کے حوالے سے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم اس حوالے سے کافی عرصہ سے کام کررہے ہیں اور اب شاید یہ کام اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہےکہ کراچی کو وفاق کے کنٹرول میں دے دیا جائے، اس پر آہستہ آہستہ عمل کیا جائے گا ، وفاق کراچی کے ایسے معاملات فوج ( این ڈی ایم اے) کے ذریعہ کنٹرول کرے گا جو آفت زدہ علاقوں یا اس سے متاثرہ شہریوں کی مدد کرنے کے لیے ہی قائم کیا گیا ہے۔

اس وقت کراچی سے زیادہ آفت زدہ کوئی علاقہ نہیں ہے جس کا انفرا اسٹرکچر برباد ہو چکا ہے اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے مگر ان دنوں ایم کیو ایم کے سینئر ڈپٹی کنوینئر عامر خان کی جانب سے اچانک علیحدہ صوبے کی بات بھی ایسی ہے کہ اس کامطلب واضح نہیں ہو رہا ، دوسری طرف بعض ذرائع یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عامر خان نے یہ بات بہت گہرائی میں ایسے وقت میں کہی ہے کہ اسے پہلا پتھر سمجھا جا رہا ہے یعنی پانی میں پہلے پتھر کا ارتعاش چیک کیا جا رہا ہے۔

این ڈی ایم اے نے نالوں کی صفائی شروع کردی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ جلد ہونے والی طوفانی بارش میں اس صفائی کے مثبت اثرات سے کراچی میں بہتری متوقع ہے تاہم این ڈی ایم اے کی آمد سے سیاسی بازیگروں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے اور انہیں اس میںاپنی سیاسی موت دکھائی دے رہی ہے ۔

موجودہ دور میں کراچی کے علیحدہ صوبہ بننے کا تمام تر کریڈٹ پی ٹی آئی کو مل جائے گا اور ایم کیو ایم اس کے ثمرات سے محروم ہو جائے گی ،شاید اسی لیے عامر کان نے پہلے ہی علیحدہ صوبے کی صدا لگا دی ہے تاہم کراچی محرومیوں اور مایوسیوں کے گرداب میںاس قدر پھنسا دیا گیا ہے کہ اب ڈھائی کروڑ کی آبادی کے لیے اس کا وفاق کے کنٹرول میں جانا اور پھر علیحدہ صوبہ بننا واضح دکھائی دینے لگا ہے۔

Related Posts