ملک کے مختلف شہروں میں میٹرک کے امتحانات کے بعد سوشل میڈیا پر مبارکبادوں کی ایک بہار نظر آ رہی ہے، کسی رکشے ڈرائیور کی بیٹے نے پہلی پوزیشن لے لی تو کہیں موچی کا بیٹی بورڈ میں پوزیشن لے رہی ہے تو کہیں کسی مزدور کی بیٹی نے سائنس کے میدان میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ہر طرف کامیابی کی کہانیاں، قربانیوں کے تذکرے اور آنکھوں میں نمی لیے فخر کرتے والدین کی تصویریں نظر آرہی ہیں۔
لیکن کیا یہ کہانیاں خوشی کی علامت ہیں یا نظام پر ایک گہرا طنز؟سوال یہ ہے کہ اگر پوزیشنیں ہمیشہ سے محنت کش، غریب طبقے کے بچوں کے حصے میں آتی ہیں تو پھر زندگی کے بڑے امتحانات، سی ایس ایس کے کمروں میں، سول سروسز کی فہرستوں میں، اسمبلی کی نشستوں پر، یا کسی وزارت کے آرام دہ صوفے پر یہ بچے کیوں نہیں نظر آتے؟
کیا واقعی صرف نمبر لینا کافی ہے؟ نہیں،کیونکہ نمبر غریب کے نصیب میں ہوتے ہیں مگر خواب کی تعبیر نہیں۔امیر کا بیٹا بیرونِ ملک اسکالرشپ لے کر نکل جاتا ہے کیونکہ اس کے لیے اسکول کی پہلی گھنٹی سے لے کر یونیورسٹی کے آخری سمیسٹر تک ہر سہولت پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔
غریب کا بچہ اپنی ماں کے سلائی مشین کی آواز یا والد کے محنت کش ہاتھوں کی لکیروں میں اپنی کامیابی کا خواب بنتا ہے لیکن وہ خواب یونیورسٹی کی فیس یا کسی انٹرویو میں سفارش کے بغیر دم توڑ دیتا ہے۔
نظامِ تعلیم ہمیں مساوات کے خواب دکھاتا ہے، نصاب میں مساوی مواقع کے عنوان پر مکمل باب موجود ہوتا ہے لیکن عملی زندگی میں مساوات صرف بورڈ کے امتحانات تک محدود ہے، جہاں غریب کے بچے نمبر تو لے لیتے ہیں مگر نوکری پوزیشن اور ترقی کا دروازہ ان کے لیے بند رہتا ہے۔
اگر محنت ہی سب کچھ ہوتی تو آج گاؤں کے ٹاپر بچے اسلام آباد کے دفاتر میں فائلیں نہیں اٹھا رہے ہوتے بلکہ فائلوں پر دستخط کر رہے ہوتے۔ اگر قابلیت ہی معیار ہوتی تو موچی کا بیٹا وزارتی اجلاسوں میں فیصلے کر رہا ہوتا سڑک پر جوتے پالش نہیں کر رہا ہوتا۔
نظام سے جواب مانگا جا رہا ہے کہ وہ پوزیشن ہولڈر کہاں گئے؟ کیوں وہ یونیورسٹی کے راستے میں کھو گئے؟ کیوں ان کی ڈگریاں دیوار کی زینت بن کر رہ گئیں؟ کیوں ان کے خواب صرف کمرۂ جماعت تک محدود رہے؟ جواب شاید ہمارے نظام، اداروں اور اس تلخ سچ میں چھپا ہے کہ یہ مقابلہ محنت کا نہیں، وسائل کا ہے۔
جب تک تعلیم صرف امتحان تک محدود رہے گی اور نوکری تعلق سے جڑی رہے گی تب تک ہر سال نئی تصویریں آئیں گی، نئے مزدوروں کے بچوں کی پوزیشنیں، نئی مبارکبادیں لیکن اگلے صفحے پر ہمیشہ وہی پرانا سوال چھپا ہوگا کہ کہاں ہے وہ مساوات، جس کا وعدہ کیا گیا تھا؟