ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پاکستان آنے میں کون رکاوٹ ہے، پاکستانی یوٹیوبر کو انٹرویو میں انکشاف

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو یوٹیوب

بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر اور داعی ڈاکٹر ذاکر نائیک نے پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستان آنے کی پلاننگ کر رہے ہیں، مگر آئے دن احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے آ نہیں پا رہے ہیں۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ان خیالات کا اظہار معروف پاکستانی یوٹیوبر نادر علی کی پوڈکاسٹ میں ان سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ نادر علی نے یہ پوڈ کاسٹ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ادارے ملائیشیا میں جاکر کیا۔ پوڈ کاسٹ میں پاکستان، انڈیا، مذہب، کھیلوں سمیت ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بچپن، تعلیم اور دعوتی سرگرمیوں پر دلچسپ گفتگو کی گئی ہے۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ایک سوال پر بتایا کہ وہ کھیلوں میں فٹبال پسند کرتے ہیں جبکہ کرکٹ کو وقت کے ضیاع کا سبب سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسکول لائف میں وہ ہکلے تھے، اس لیے ان سے قدرے مختلف سلوک ہوتا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اسکول لائف میں ان کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ریس جیت جائیں مگر یہ خواب کالج لائف میں اس وقت پورا ہوا جب ایک ساتھی نے انہیں نالائق سمجھ کر چیلنج کیا۔

انڈیا چھوڑنے سے متعلق سوال پر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بتایا کہ انڈیا میرا وطن ہے، اس کو چھوڑنے پر افسوس ہوا، آج بھی انڈیا کو مس کرتا ہوں، وجہ یہ ہے کہ انڈیا چھوڑنے کی وجہ سے اسلام کی دعوت کا ایک بڑا میدان ہاتھ سے نکل گیا۔

پاکستان آنے سے متعلق سوال پر ڈاکٹر نائیک نے بتایا کہ انہیں پاکستان سے بہت محبت ہے، وہ 1991 میں پہلی اور آخری دفعہ پاکستان جا چکے ہیں مگر تب وہ لیکچر نہیں دیتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواہش کے باوجود جب تک انڈیا میں رہا میں نے پاکستان جانے سے گریز کیا، حالانکہ اس وقت بھی میرے لیے پاکستان جانا کوئی مشکل نہیں تھا۔ ایک فون کال پر مجھے پاکستان کا ویزا مل سکتا تھا۔

اس کے باوجود پاکستان جانے سے اس لیے گریز کیا کہ کیونکہ پاکستان جانے کی صورت میں انڈیا میں اسلام کی دعوت کے کام کا نقصان ہو سکتا تھا۔ یہ خدشہ تھا کہ میں پاکستان گیا تو پیچھے بھارت سرکار مجھے آئی ایس آئی سے جوڑ کر میرے ادارے بند کردے گی اور دعوت کا سلسلہ رک جائے کا۔

ڈاکٹر نائیک نے کہا کہ اب یہ صورتحال نہیں ہے، 2016 میں انڈیا چھوڑنے کے بعد سے اب میں نے پاکستان جانے کے حوالے سے اپنا فیصلہ بدل دیا ہے، میں نے 2020 میں بھی پاکستان آنے کی پلاننگ کی تھی، تیاریاں مکمل تھیں مگر پھر کوویڈ آنے کی وجہ سے پروگرام کینسل ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ اب بھی پاکستان آنے کا پروگرام ہے مگر پاکستان میں آئے دن احتجاجوں کی وجہ سے حتمی تاریخ طے نہیں ہو پا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سال پاکستان آنے کا پلان ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دنیا میں سب سے زیادہ میری پاکستان کے سفیروں سے ملاقات رہی ہے، دنیا کے ہر ملک میں پاکستان کے سفیر مجھ سے ملاقات کرتے اور ٹکرتے رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ انڈیا جانا میرے لیے مشکل نہیں ہے، وہ ریڈ کارپٹ دیں گے مگر واپس آنا ممکن نہیں ہوگا،  کیونکہ وہ اسلام کی دعوت کی وجہ سے مجھے نمبر ون دہشت گرد سمجھتے ہیں اس لیے مجھے ڈائریکٹ وہ جیل میں ڈالیں گے۔

گفتگو کے دوران ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ایک دلچسپ انکشاف بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ 2019 میں کشمیر کی خود مختاری ختم کرنے سے چند ماہ پہلے بھارتی حکومت نے اپنا نمائندہ مجھ سے ملاقات کیلئے بھیجا۔ نمائندے نے مجھے بتایا کہ انہیں براہ راست مودی اور امیت شاہ نے آپ سے ملنے کیلئے بھیجا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ ملک واپس آئیں، آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں، سرکار آپ کو پورا پروٹوکول دے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے مودی کے نمائندے سے پوچھا کہ آپ مجھے کیوں بلانا چاہتے ہیں، میں نے ان سے کہا کہ مجھے اپنی فیملی کے بعد سب سے زیادہ آپ کی ایجنسیاں جانتی ہیں، میں نے آج تک کوئی ایسا کام نہیں کیا جو انڈین آئین کے خلاف ہو، میں آج بھی اپنے دیش کی ہر خدمت کیلئے تیار ہوں۔

ڈاکٹر نائیک کے مطابق مودی کے نمائندے نے بتایا کہ مودی سرکار چاہتی ہے کہ آپ آکر دیش کی خدمت کریں، ڈاکٹر نائیک نے بتایا کہ میں نے انہیں بتایا کہ میں انڈین حکومت کے ساتھ بھی تعاون کیلئے تیار ہوں مگر دو شرطیں ہیں کہ کوئی کام اسلام کے خلاف نہیں کروں گا اور دوسری شرط یہ ہے کہ حکومت سے پیسے نہیں لوں گا۔

ڈاکٹر نائیک کے مطابق پانچ گھنٹے کی ملاقات کے دوران میں نے بہت پوچھا کہ آپ کا اصل مقصد کیا ہے، آپ مجھے کیوں انڈیا واپس بلانا چاہتے ہیں، مگر مودی کے نمائندے نے کوئی واضح جواب نہیں دیا مگر بعد میں مجھے بتایا گیا کہ ہم کشمیر کی خود مختاری ختم کر رہے ہیں، اس پر آپ کی سپورٹ چاہئے، جس پر میں نے انہیں دوٹوک جواب دیا کہ یہ کشمیر کے مسلمان بھائیوں کے ساتھ غداری ہوگی، ایسا میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں نے انہیں بتایا کہ آزادی کشمیریوں کا حق ہے۔

Related Posts