غزہ پر اسرائیل کی ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری بدترین وحشیانہ بمباری کے پس منظر میں سوشل میڈیا پر تربوز کو فلسطین سے جوڑ کر اسرائیل کیخلاف احتجاج اور فلسطینیوں سے اظہار یکجتہی کیا جا رہا ہے، آخر تربوز اور فلسطین میں کیا جوڑ ہے؟

سوشل میڈیا پر صارفین نہ صرف تکون شکل میں کاٹے گئے تربوز کی تصویریں فلسطینی جھنڈے کی علامت کے طور پر شیئر کر رہے ہیں، بلکہ  ہیش ٹیگ واٹر میلن (#watermelon) بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے، جس کو اب تک 97 ہزار سے زائد پوسٹس میں شامل کیا گیا ہے، جن میں اکثر پیغامات فلسطین کی حمایت پر مشتمل ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق مشہور، با اثر شخصیات اور بہت سے سوشل میڈیا صارفین اس خوش رنگ پھل کو فلسطین کے ساتھ جوڑ رہے ہیں مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے اور تربوز کا فلسطینی عوام کے ساتھ کیا تعلق ہے؟

وحشی اسرائیل نے الشفاء اسپتال کو فلسطینیوں کا مدفن بنا دیا

تربوز کی کہانی

تربوز کی تاریخی اہمیت فلسطین کے پرچم پر پابندی کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔

تربوز کو پہلی بار فلسطینی ریاست کی علامت کے طور پر 1967 میں عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ کے بعد استعمال کیا گیا۔ اس وقت اسرائیلی حکومت نے فلسطینی پرچم کی عوامی نمائش پر پابندی لگا دی تھی۔

اپنے پرچم کی نمائش پر لگی پابندی سے بچنے کے لیے فلسطینیوں نے تربوز کا استعمال شروع کر دیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے تربوز کو مثلث میں کاٹ لیا کیونکہ اس طرح یہ ان کے پرچم جیسا دکھائی دیتا تھا، جس میں تربوز کی مانند سرخ، سیاہ، سفید اور سبز رنگ موجود ہیں۔

فلسطینی پرچم لہرانے پر یہ صہیونی پابندی اور اس کی جگہ فلسطینیوں کی جانب سے تربوز کی قاشوں کا استعمال 25 سال تک برقرار رہا، یہاں تک کہ 1993 میں اسرائیل نے بالآخر اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی پرچم لہرانے پر پابندی ہٹا دی۔ یاد رہے کہ اوسلو معاہدہ اسرائیل فلسطین تنازع کو حل کرنے کی کوشش کرنے والا پہلا رسمی معاہدہ تھا۔

یہ پرچم غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے انتظامی امور کی زمہ دار فلسطینی اتھارٹی کی نمائندگی کرتا ہے۔

موجودہ دور میں جب فلسطینی پرچم سمیت فلسطینی مواد کے پھیلانے کو اکثر سنسر کیا جاتا ہے تو ایسے میں سوشل میڈیا کے دور میں تربوز کے ٹکڑوں کی تصاویر کو فلسطینی حامی حلقوں کی جانب سے کثرت سے استعمال کیا جا رہا ہے۔