سقوطِ ڈھاکہ بڑا عجیب سانحہ ہے۔ مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کرنے والی 1971 کی جنگ کے 52سال بعد جنگ کا حصہ بنے ہوئے ہر ملک نے ان تمام تر واقعات کی اپنی منفرد داستان تیار کر لی۔
بنگلہ دیش سقوطِ ڈھاکہ کو پاک فوج کے خلاف جدوجہد کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ بھارت اور پاکستان اسے تیسری پاک بھارت جنگ کا نام دیتے ہیں، یوں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی سقوطِ ڈھاکہ کے متعلق اپنی اپنی کہانی اور اپنا اپنا نظریہ ہے۔
[visual-link-preview encoded=”eyJ0eXBlIjoiaW50ZXJuYWwiLCJwb3N0IjoxODM1NDMsInBvc3RfbGFiZWwiOiJQb3N0IDE4MzU0MyAtINm+2Kfaqdiz2KrYp9mGINmF24zauiDYp9izINmI2YLYqiDYrtix24zYr9mG25Ig2qnbkiDZhNuM25Ig2LPYs9iq24wg2KrYsduM2YYg2qnYp9ix24zauiDaqdmI2YbYs9uMINuB24zautifIiwidXJsIjoiIiwiaW1hZ2VfaWQiOjE4MzU0NCwiaW1hZ2VfdXJsIjoiaHR0cHM6Ly9tbW5ld3MudHYvdXJkdS93cC1jb250ZW50L3VwbG9hZHMvMjAyMy8xMi9DYXJzLTMwMHgyNTAuanBnIiwidGl0bGUiOiLZvtin2qnYs9iq2KfZhiDZhduM2rog2KfYsyDZiNmC2Kog2K7YsduM2K/ZhtuSINqp25Ig2YTbjNuSINiz2LPYqtuMINiq2LHbjNmGINqp2KfYsduM2rog2qnZiNmG2LPbjCDbgduM2rrYnyIsInN1bW1hcnkiOiLaiNin2YTYsSDaqduMINmC2K/YsSDZhduM2rog2KfYttin2YHbkiDaqduSINio2KfYudirINmF2YTaqSDZhduM2rog2qnYp9ix2YjauiDaqduMINmC24zZhdiq24zauiDYqNq+24wg2KLYs9mF2KfZhiDYs9uSINio2KfYqtuM2rog2qnYsdmG25Ig2YTar9uMINuB24zautuUIiwidGVtcGxhdGUiOiJzcG90bGlnaHQifQ==”]
بنگلہ دیش کی آزادی
اس تنازعے کی جڑیں بنگالی کو ریاستی زبان کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار، اقتصادی تفاوت اور مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ثقافتی اختلافات ہیں۔ 1970 میں کشیدگی عروج پر پہنچ گئی جب شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں عوامی لیگ نے قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کی، لیکن اقتدار ان کے حوالے نہیں کیا گیا، جس کے نتیجے میں تشدد اور بقول بنگلہ دیشی قیادت، پاک فوج کی مداخلت شروع ہوئی۔ اس تنازعے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مظالم ہوئے، اور اس کے بعد نو ماہ کی جدوجہد دسمبر 1971 میں پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دئیے۔
اس وقت سے اب تک بنگلہ دیش میں مختلف قوتوں نے بیانیہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے، جس کی وجہ سے عبوری انصاف کو چیلنجز درپیش ہیں۔ سیاسی دھڑوں کے مختلف نقطہ نظر بھی موجود ہیں۔ خاص طور پر عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) نے متاثرین اور ان کے خاندانوں کی بحالی میں رکاوٹ ڈالی ہے۔
بھارت کیلئے فتح
ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں سقوطِ ڈھاکہ کی جنگ کو فخر کے ساتھ ایک اہم فتح کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو فوجی طاقت اور ماضی کے تنازعات کے بدلے کی علامت ہے۔ یہ بیانیہ بھارت کو مظلوم بنگالیوں کے نجات دہندہ کے طور پر بھی اجاگر کرتا ہے، حالانکہ پناہ گزینوں کی بڑی تعداد سے اندرونی چیلنجز پیدا ہوئے۔ پناہ گزینوں اور میزبان آبادی کے درمیان کشیدگی آج تک برقرار ہے جس میں خصوصاً آسام جیسے خطے شامل ہیں۔
پاکستان کیلئے فراموش کردہ تنازعہ
ہمارے ہاں 1971 کی جنگ کو اکثر ذلت آمیز شکست کے طور پریاد کیا جاتا ہے، جس کا نصابی کتب میں کم سے کم ذکر ملتا ہے۔ مشرقی پاکستان کے نقصان نے ”دوبارہ کبھی نہیں“ کی ذہنیت کو جنم دیا، جس سے دفاعی اخراجات میں اضافہ اور جوہری پروگرام شروع ہوا۔
پاکستانی نصابی کتب نے نقصان کا ذمہ دار بیرونی طاقتوں کو ٹھہراتے ہوئے بھارت مخالف اور ہندو مخالف نعرہ اپنایا۔ مرکزی دھارے کی گفتگو میں نمایاں نہ ہونے کے باوجود1971 کے واقعات پاکستان کے تشخص اور علاقائی پالیسیوں کی تشکیل کرتے رہتے ہیں۔ بیانیہ خود ارادیت کے لیے دیگر علاقائی تحریکوں کے لیے پاکستان کے نقطہ نظر پر اثرات و مضمرات کا حامل ہے۔
آج 52سال بعد 1971 کی وراثت بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں نمایاں ہے، جو قومی شناختوں کو تشکیل دے رہی ہے اور الگ الگ بیانیے کو تقویت دے رہی ہے۔ جنگ ان لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرتی رہتی ہے جنہوں نے اس کا تجربہ کیا اور ہر ملک کے تاریخی شعور میں اہم کردار بھی ادا کرتی ہے۔