مسلح افواج کیلئے ملک کے دفاعی بجٹ میں 80 ارب روپے کا اضافہ

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مسلح افواج کیلئے ملک کے دفاعی بجٹ میں 80 ارب روپے کا اضافہ
مسلح افواج کیلئے ملک کے دفاعی بجٹ میں 80 ارب روپے کا اضافہ

اسلام آباد: حکومت نے مسلح افواج کی تنخواہوں سمیت دیگر ضروریات کو پورا کرنے کیلئے  جاری مالی سال کے دفاعی بجٹ میں تقریباً 6 فیصد اضافہ کرکے حجم 1.45 کھرب روپے سے زائد کردیا ہے۔

تفصیلات کےمطابق مسلح افواج کیلئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 1.453 ٹریلین روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے جو کہ گزشتہ بجٹ کے 1.37 کھرب روپے مختص کیے جانے سے تقریباً 80 ارب روپے زائد ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

سوات اور گردو نواح میں زلزلے کے جھٹکے، عوام میں خوف و ہراس

دفاعی بجٹ کل اخراجات کا تقریباً 16 فیصد ہو گا، بڑھی ہوئی رقم زیادہ تر ملازمین سے متعلقہ اخراجات، تنخواہوں اور الاؤنسز کے لیے مختص کی جائے گی جبکہ دفاعی بجٹ کے دیگر اخراجات میں سول کام شامل ہیں۔ 

عسکری انفراسٹرکچر کی ترقی اور مرمت بھی بجٹ کے دیگر اخراجات میں شامل ہیں۔ اسلحہ اور گولہ بارود کی مقامی خریداری، درآمد سے متعلقہ اخراجات اور آپریٹنگ اخراجات بھی بجٹ میں شامل کر لیے گئے۔

آپریٹنگ اخراجات میں ٹرانسپورٹ، راشن، تربیت اور علاج پر اٹھنے والے اخراجات شامل ہیں۔ وزارت دفاع نے جناح نیول بیس، نیول بیس تربت اور دیگر دفتری تعمیرات سمیت اہم شارٹ فال کیلئے 80ارب کے اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔ 

دفاعی بجٹ میں مزید 80 ارب روپے اضافے کا فیصلہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ای سی سی کے اجلاس کی صدارت کی۔

ای سی سی اجلاس میں مسلح افواج کے لیے 80 ارب روپے کے ضمنی بجٹ یا اصل اضافی اخراجات کی حد تک منظوری دی گئی۔رواں مالی سال کیلئے قومی اسمبلی نے 1 اعشاریہ 373 کھرب کے دفاعی بجٹ کی منطوری دی تھی۔ 

وزارت دفاع کو اس مالی سال میں 153 ارب روپے یا پچھلے سال کے نظرثانی شدہ بجٹ کے مقابلے میں 11.8 فیصد اضافی رقم ملی۔رواں برس دفاعی اخراجات مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے 2 اعشاریہ 2 فیصد کے برابر رکھے گئے ہیں جس میں ترقیاتی پروگرامز شامل نہیں۔ 

Related Posts