کراچی میں کیمیکل فیکٹری میں خطرناک آتشزدگی: ذمہ دار کون؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی میں کیمیکل فیکٹری میں خطرناک آتشزدگی: ذمہ دار کون؟
کراچی میں کیمیکل فیکٹری میں خطرناک آتشزدگی: ذمہ دار کون؟

پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کراچی میں جمعہ کے روز کیمیکل فیکٹری میں آتشزدگی سے کم از کم 16 مزدور جاں بحق ہوگئے، اس طرح کے حادثات کے تناظر میں ملک میں صنعتی ملازمین کے تحفظ کے بارے میں سوالات اٹھنا فطری عمل ہے۔

جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) کے مردہ خانے کے باہر جذباتی مناظر دیکھے گئے جہاں لاشیں لائی جا رہی تھیں۔ جے پی ایم سی کے ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید نے بتایا کہ اسپتال میں اب تک 16 لاشیں لائی جا چکی ہیں۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کورنگی شاہ جہاں نے بتایا کہ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ عمارت میں اب بھی 25 افراد پھنسے ہوئے ہیں۔ ملک میں کام کرنے کی جگہوں پر حفاظت اور صحت کے حوالے سے ناقص انتظامات کیے جاتے ہیں یا پھر سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر حادثے کی صورت میں کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو جاتی ہے۔

ہوا کیا؟

پولیس اور فائر بریگیڈ حکام نے بتایا کہ آگ مہران ٹاؤن میں ایک کثیر المنزلہ کیمیکل فیکٹری میں لگی جبکہ فیکٹری کی زیادہ تر کھڑکیاں بند ہیں۔ نجی ٹیلی ویژن چینلز کی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ فیکٹری کی اوپری منزلوں سے گھنے سرمئی دھوایں کے بادل اٹھ رہے تھے۔

ایک زندہ بچ جانے والے کارکن نے میڈیا کو بتایا کہ آگ سیڑھی کے نیچے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی جہاں سامان ، بریف کیس اور بیگ رکھے گئے تھے۔ جیسے ہی آگ نے سیڑھیوں کو اپنی لپیٹ لیا ، اس کا بھائی اور دیگر ساتھی جو عمارت کی پہلی منزل پر تھے اتر نہیں سکے اور وہ وہاں پھنس گئے۔

جے پی ایم سی کے ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی جانب سے 16 لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان سب کی موت دھواں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ حالانکہ ان میں سے کچھ ” کارکنان جزوی طور پر جھلس بھی گئے تھے”۔

ڈاکٹر سمیہ سید نے مزید بتایا کہ “دھواں اور کاربن کے ذرات سانس کے ذریعے انسانی جسم کے اندر چلے جاتے ہیں جس سے سانس لینے میں دشواری پیدا ہوتی ہے اور موت واقع ہو جاتی ہے۔”

ماضی کے واقعات

کراچی صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے ، جہاں بہت سے لوگوں نے بلڈنگ رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رہائشی علاقوں میں کارخانے لگا رکھے ہیں۔

2015 میں شہر میں ایک فیکٹری گرنے سے کم از کم 30 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

2012 میں کراچی کے علاقے بلدیہ میں ایک گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگنے سے 250 سے زائد مزدور جاں بحق ہوگئے تھے۔

بلدیہ فیکٹری کے واقعے پر عالمی سطح غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔  مذکورہ واقعہ ملک کی بدنامی کا باعث بھی بنا تھا ، کیونکہ فیکٹری کی تمام مصنوعات غیر ممالک کو درآمد کی جاتی تھیں۔

ایسے واقعات کیوں ہوتے ہیں؟

پاکستان میں حکمرانوں کی جانب سے سب سے زیادہ نظرانداز کیا جانا والا شعبہ صنعتی شعبہ ہے۔ حکومتی سطح پر ناتو فیکٹریوں کی انسپیکشن کا کوئی خاطرخواہ نظام موجود ہے اور نہ ہی لیبر کی  تربیت کا کوئی ادارہ موجود ہے۔ فیکٹری معائنے کے جو طریقے کار راج ہیں وہ انتہائی گھسے پٹے اور فرسودہ ہیں۔

انٹرنیشنل ٹریڈ یونین کنفیڈریشن کے گلوبل رائٹس انڈیکس نے 2016 میں پاکستان کو مزدوروں کے لیے دنیا کے بدترین ممالک میں شامل کیا تھا، پاکستان کا نمبر 5 میں سے چوتھا تھا۔ 2020 میں یہ کیٹیگری 5ویں نمبر پر چلی گئی۔ جس کا مطلب ہے کہ ملک میں مزدوروں کے حقوق کے لیے کوئی جامع پالیسی ہی موجود نہیں ہے۔

صوبائی حکومتوں نے قانون سازی سے بچنے کے لیے ملک میں فیکٹری ایکٹ 1934 ہی نافذ کررکھا ہے۔ ملک میں تمام  لیبر لا بھی موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد یا تو ہوتا ہی نہیں یا پھر ناقص طریقے سے ہوتا ہے۔

متعلقہ سرکاری محکموں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ فیکٹریز اور ورکشاپس حفاظتی قواعد و ضوابط پر عمل پیرا رہیں ، اور یہ کہ وہ یونٹ جہاں کیمیکلز یا مضر صحت مواد تیار ہوتے ہیں وہ رہائشی علاقوں سے دور صنعتی زون میں قائم کیے جائیں۔

Related Posts