لباس و پوشاک کے متعلق اسلام کی تہذیبی تعلیمات

مقبول خبریں

کالمز

Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟
zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام ایک جامع اور مکمل دین ہے،اعتدال اورتوازن مذہب اسلام کا خصوصی وصف ہے، اس کی تعلیمات انسانی زندگی کے ہرشعبہ کو محیط ہیں۔

زندگی کا کوئی زاویہ ایسانہیں ہے جس میں اسلام نے اپنے پیروکاروں کی ٹھوس اور مضبوط رہنمائی نہ کی ہو، عبادات ہو یا معاملات، اخلاقیات ہو یا اقتصادیات، مناکحت ہو یا معاشرت غرض ہرشعبہ میں اسلام کی ہدایات موجود ہیں اور ان تعلیمات میں ایک طرف انسان کی فطرت اوراس کے مزاج ومذاق کوپوری طرح ملحوظ رکھا گیا ہے تو دوسری طرف یہ عدل ومساوات کاخاص مظہر ہیں۔

لباس کے متعلق اسلامی ہدایات

اسلامی ہدایات کاایک حصہ انسان کے لباس اوراس کے پوشاک سے متعلق ہے، لباس اللہ کی عظیم نعمت ہے، سترپوشی اورانسانی جسم کی زینت کاسامان ہے، سردی اورگرمی سے حفاظت کابہترین ذریعہ ہے، اسلام نے اس پہلوسے بھی مسلمانوں کوبڑی واضح ہدایت دی ہیں، اگرمسلمان ان ہدایات پرعمل کرتاہے،اورشرعی تعلیمات کی روشنی میں جسم کوچھپانے کے لئے لباس کاانتخاب کرتاہے تونہ صرف یہ کہ ظاہری طورپراس کاجسم جمال وزینت کا  مظہر ہوگا بلکہ وہ دونوں جہاں کی ابدی سعادتوں سے مالامال ہوگا، ذیل میں لباس کے متعلق اسلام نے جوہدایات دی ہیں ان کااختصارکے ساتھ تذکرہ کیاجاتاہے۔
ستر عورت کا اہتمام

لباس کے حوالہ سے بنیادی طورپراسلام یہ ہدایت دیتاہے کہ اس سے قابل شرم اعضا چھپ جائیں، اورلوگوں کی نگاہوں سے مستورہوجائیں،مرد کا قابل سترحصہ ناف سے لے کرگھٹنے تک ہے،اورعورت کے لیے دونوں ہاتھ اوردونوں قدم چھوڑکرپورابدن قابل سترحصہ ہے،کسی مردکے سامنے ناف سے گھٹنے تک کے کسی حصہ کوکھولنا مردکے لئے شرعا ناجائزہے، اسی طرح کسی اجنبی کے سامنے دونوں ہاتھ اوردونوں قدم کے علاوہ بدن کے کسی حصہ کوکھولنا شرعا عورت کے لئے ناجائزاورحرام ہے، ہاں اگر سخت مجبوری ہوتواوربات ہے،لہذا مرداورعورت کوایسے پوشاک کا انتخاب کرنا ازحد ضروری ہے جس سے ان کے قابل سترحصے چھپ جائیں اورلوگوں کی نگاہ ان پرنہ پڑسکے، آج جدید تہذیب کے نام پر بازار اورمارکیٹوں میں دیدہ ودانستہ ایسے لباس کوفروغ دیا جا رہا ہے جس میں لباس کے اس بنیادی مقصد کو دیدہ و دانستہ نظر انداز کیا جارہاہے اورجدید فیشن کا سہارا لے کر بے حیائی اور عریانیت کو منظم اورہمہ گیرانداز میں پھیلایا جا رہا ہے، چنانچہ آج آپ کسی بھی کپڑے کی دکان پرچلے جائیے وہاں یا توایسے باریک اور پتلے لباس ملیں گے جن کوزیب تن کرنے کے باوجودجسم صاف جھلکتاہے، یا ایسے تنگ اورچست لباس ملیں گے جن سے اعضاءکے نشیب وفرازنظرآتے ہیں،اوردیکھنے والے کودعوت نظارہ دیتے ہیں، لہذا ایک مسلمان لباس کا انتخاب کرتے وقت جدید فیشن کی پیروی نہ کریں، جووقت بدلنے کے ساتھ بدلتارہتاہے،بلکہ وہ اس بات کاخاص خیال رکھیں کہ وہ نہ اتنا باریک ہوکہ جسم کے خد وخال نظرآئیں اورنہ اتناتنگ اورچست ہوکہ جسم کے ابھار دکھائی دیں، بلکہ لباس ڈھیلا ڈھالا ہو اوراس کی لمبائی اتنی ہوکہ قابل ستراعضاءچھپ جائیں۔
زینت وآرائش کاسامان
لباس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ انسان کے لئے زیب وجمال کا ذریعہ ہو اورسلیقہ وتہذیب کی علامت ہو، لہذاایک مسلمان کوچاہیے کہ وہ لباس کے انتخاب میں اس مقصد کو بھی ا پنے پیش نظر رکھے، ایسا لباس نہ پہنے کہ وہ کوئی عجوبہ یا کھلونا نظرآئے، جس سے وہ لوگوں کی تفریح اوردل لگی کا ذریعہ بن جائے، قرآن کریم میں اللہ جل شانہ نے لباس کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے بنی آدم! ہم نے تم پرلباس نازل کیا جو تمہارے قابل ستر اعضاء کو چھپائے اور تمہارے لئے زینت کاذریعہ ہو۔(الاعراف:۶۲)

لباس کا انتخاب ہمیشہ اپنے وسعت وحیثیت کے لحاظ سے کرنا چاہیے، نہ اتنا قیمتی اوربیش بہا لباس ہوکہ دل میں فخر و تکبر کا احساس ابھرنے لگے اوردوسروں کوتحقیرآمیزنظروں سے دیکھنے لگے اورنہ اتنا شکستہ اوربوسیدہ پیراہن ہوکہ شکل وصورت سے انسان مجسم سوال نظرآئے اوردوسرے اس کومحروم و مہجور سمجھنے لگیں، بلکہ اعتدال اورتوازن کوملحوظ رکھتے ہوئے انسان اپنے لئے صاف ستھرے پوشاک کا انتخاب کرے، لباس کی وجہ سے وہ سلیقہ منداورمہذب نظرآئے، اورلباس سے متانت وسنجیدگی اور وقار و شائستگی جھلکے۔ حدیث شریف میں ہے: اللہ تعالی اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اس کی نعمتوں کے اثرات بندے پر نظر آئیں۔ (ترمذی،حدیث نمبر:۹۱۸۲)
مشابہت سے پرہیز
شریعت کے عمومی مزاج اوراس کے احکام وعلل کا بغورجائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے قدم قدم پر اس بات کاخیال رکھا ہے کہ اس میں اجنبی اثرات درنہ آئیں اورغیراسلامی رسوم و رواج سے شریعت اسلامیہ کا صاف وشفا ف سر چشمہ گدلا نہ ہو، بلکہ نصوص شریعت کا گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ غیرقوموں کی تہذیب وثقافت اوران کے رسوم ورواج کی مخالفت اسلام کا مقصود اورمطمح نظرہے،عبادت ہویامعاشرت ، اخلاقیات ہویاسماجیات ہرایک کی بابت اسلام نے رہنمایانہ خطوط وضع کیے ہیں اورپنے پیروکاروں کے لئے دین کا ایساروح پرور مرقع پیش کیا ہے جس کے نقش ونگار اوربیل بوٹوں میں غیرقوموں کی تہذیب وثقافت سے مدد نہیں لی گئی ہے بلکہ اسلام نے امت مسلمہ کو ایک جامع ہدایت دی کہ غیرمنصوص مسائل میں جب اجتہاد اوراستنباط کی ضرورت پیش آئے تواس میں اصولی طور پر یہ خیال رکھاجائے کہ غیرقوموں کی تہذیب وثقافت کا رنگ اسلا م پر نہ چڑھنے پائے اوران کے عادات واطوارکی چھاپ مذہب اسلام پر نہ پڑے، چنانچہ آپ ﷺکاارشادہے: من تشبہ بقوم فہو منہم (مشکاة المصابیح ،حدیث نمبر:۷۴۳۴) جوشخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تووہ انہی میں سے ہوگا۔

اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے شارح مشکاة علامہ طیبی ؒفرماتے ہیں: ہذاعام فی الخلق والخلق والشعار(مرقاة المفاتیح:۷/۲۸۷۲) اس وعید کے تحت تہذیبی واخلاقی دونوں قسم کی مشابہت داخل ہے۔لباس اورپوشاک کا استعمال کرتے وقت غیرقوموں کی مشابہت سے پرہیزکرنا بے حدضروری ہے، ایسا لباس انتخاب کرنا چاہیے کہ جوعام مسلمانوں کا ہواورغیرقوموں کی نقالی نہ برتی گئی ہو، کیوں کہ لباس کا انسان کی زندگی پربڑا گہرا اثرپڑتاہے، انسانی اخلاقیات کی تعمیروتشکیل میں لباس بہت ہی اہم کردارادا کرتا ہے، اگرفاسق و فاجرکا لباس زیب تن کیا جائے تواس سے انسان کے اخلاق و رجحانات پرمنفی اثرات پڑتے ہیں اورفاسق وفاجرکی صفات انسان کے اندرپیداہوتی ہیں،اوراس بات کوآج کی جدیدسائنس اورماہرین نفسیات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ لباس اورپوشاک انسان کے اخلاق و رجحانات پرغیرمعمولی اثرڈالتے ہیں۔

حضرت عبد اللہ بن عمروؓکی روایت ہے کہ حضورﷺ نے مجھے زرد لباس پہنے دیکھا توآپ ﷺ نے فرمایا: ان ہذہ من ثیاب الکفار فلا تلبسہا (مسلم ،حدیث نمبر:۷۷۰۲) یہ کفار کا لباس ہے، اسے مت پہنو۔
عجب وکبرسے پرہیز
لباس اورپوشاک کے استعمال کے وقت اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس لباس کوزیب تن کرنے کی وجہ سے دل میں عجب وکبرپیدا نہ ہو،اوراس لباس کی وجہ سے غریب اورتہی دست لوگوں کے حوالہ سے تحقیروتنقیص کاخیال دل میں نہ ابھرنے پائے، اگرکسی لباس کوزیب تن کرنے کی وجہ سے اس طرح کا منفی خیال دل میں آتاہے توپھراس قسم کا لباس استعمال کرنا درست نہیں ہے، حضرت عمرابن خطاب ؓکے بارے میں آتاہے کہ انہوں نے ایک جبہ پہن کرخطبہ دیا،خطبہ کے بعد گھر تشریف لے گئے اور جبہ اتار کر گھر کے ایک کنارہ میں ڈال دیا اورفرمایاکہ اس جبہ کی وجہ سے میرے دل میں کبراورنخوت پیداہوئی لہذامیں اب یہ جبہ کبھی استعمال نہیں کروں گا لیکن کسی کپڑے کوپہننے کے بعد آیا دل میں شکر کا جذبہ پیدا ہوا یا کبر وغرور کا خیال تو اس میں امتیاز کرنے کے لئے بزرگان دین کی صحبتوں میں بیٹھنا اوران کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنا بے حد ضروری ہے، اس کے بغیر زندگی کے صحیح رخ اورغلط رخ میں امتیاز کرنا کافی مشکل کام ہے۔

Related Posts