کوئٹہ: بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے نواحی علاقے ڈیگاری میں قبائلی جرگے کے فیصلے پر مبینہ طور پر ہونے والے اس دوہرے قتل پر عدالتی اور انتظامی ادارے حرکت میں آ گئے ہیں اور سچ جاننے کے لیے قبر کشائی کا عمل جوڈیشل نگرانی میں شروع کر دیا گیا ہے۔
خاتون کی قبر کشائی کے موقع پر پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ اور جوڈیشل مجسٹریٹ کوئٹہ کورٹ نمبر 13 بھی موقع پر موجود تھیں تاکہ شفاف طبی معائنے اور قانونی کارروائی کو یقینی بنایا جا سکے۔
عدالت کی ہدایت پر جوڈیشل مجسٹریٹ کوئٹہ نے گُل بانو کی قبر کشائی کا باقاعدہ حکم جاری کیا جس پر قانونی تقاضوں کے تحت عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے اس اندوہناک واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ اور آئی جی بلوچستان پولیس کو 22 جولائی کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا ہے۔
چیف جسٹس نے اس معاملے کی سنگینی اور عوامی تشویش کے پیشِ نظر فوری کارروائی کو لازم قرار دیا ہے۔
ادھر انسداد دہشتگردی عدالت (اے ٹی سی) کوئٹہ میں مقدمے کی سماعت کے دوران کیس میں نامزد مرکزی ملزم سردار شیر باز ساتکزئی کو سخت سیکورٹی میں پیش کیا گیا۔
عدالت نمبر 1 کے جج محمد مبین نے کیس کی سماعت کی، جہاں تفتیشی ادارے نے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد دو روزہ جسمانی ریمانڈ کی منظوری دے دی اور سردار شیر باز کو تفتیش کے لیے حوالے کر دیا۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے علاقے سنجدی ڈیگاری میں پیش آنے والے اس ہولناک واقعے کے بعد ہنہ اوڑک پولیس تھانے میں مقدمہ درج کیا جا چکا ہے، اور اب تک 13 ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں، جن پر شبہ ہے کہ وہ قتل میں شریک یا معاون تھے۔
واقعے کے پیچھے موجود جرگہ سسٹم، قبائلی دباؤ اور مبینہ سرداری اثرورسوخ پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مقدمے کی تفتیش غیرجانبداری سے کی گئی تو یہ کیس غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بلوچستان میں عدالتی اور سماجی بیداری کا نیا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔
عوامی حلقے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ایسے جرگہ نما فیصلوں کی آڑ میں خواتین کے قتل کو روکا جائے اور ریاستی رٹ بحال کی جائے۔