محسن بیگ کی گرفتاری، ڈائریکٹر ایف آئی اے کو توہینِ عدالت کا نوٹس

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سینیئر صحافی محسن بیگ کی گرفتاری، ایک اور کیس میں ضمانت منظور
سینیئر صحافی محسن بیگ کی گرفتاری، ایک اور کیس میں ضمانت منظور

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سینئر صحافی محسن بیگ کے خلاف مقدمے میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے کو شوکاز نوٹس جاری کردئیے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی محسن بیگ کے خلاف پیکا ایکٹ اور انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت درج کی گئی ایف آئی آرز کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں:

لاڑکانہ میں ہاؤسنگ کالونی کے رہائشیوں کو مفت مالکانہ حقوق دینے کا فیصلہ

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ بابر بخت عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپکا کام لوگوں کی حفاظت کرنا ہے، کسی ایلیٹ کی نجی عزت بحال کرنا نہیں۔

ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت ایف آئی اے کو کسی کے بنیادی حقوق متاثر کرنے نہیں دے گی۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے کی قانون پڑھنے سے متعلق استدعا پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنے آپ کو شرمندہ کر رہے ہیں۔

ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا کلاسک کیس ہے۔ ٹی وی ٹاک شو میں کتنے لوگ تھے؟ کیا تمام لوگوں نے یہی بات کی؟ کیا آپ نے باقیوں کو گرفتار کیا؟ آپ نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کیس بنایا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک جمہوری معاشرے میں ایف آئی اے کا یہ رویہ ہے  تو ان آئینی عدالتوں کو بند کر دیں۔ کیا ایف آئی اے عوام کی خدمت کیلئے ہے یا پبلک آفس ہولڈرز کی؟ آپ کو ہر دفعہ بلا کر طریقے سے سمجھایا ہے کہ یہ نہ کریں۔

 جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کتاب کا ریفرنس دینا تضحیک ہے؟ کیا ملزم نے کتاب کا صفحہ پروگرام میں پڑھا؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ملزم نے کتاب کا صفحہ نہیں پڑھا جس پر عدالت نے شوکاز نوٹس دینے کا اعلان کیا۔

معزز اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ نے عدالت کے ساتھ فراڈ کیا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ ہم بھی آپ کے بچے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ نہ آپ میرے بچے ہیں، نہ میں کسی کا باپ ہوں۔ ہم یہاں عوام کی خدمت کیلئے ہیں۔

ڈائریکٹر ایف آئی اے نے 21 ڈی کا قانون پڑھنے کی اجازت طلب کی تو عدالت نے ریمارکس دیئے کہ قانون پڑھ کر آپ اپنے آپ اور ایف آئی اے کو مزید شرمندہ کریں گے۔ قانون پڑھ کر سنایا تو عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کو سمجھ آ رہی ہے کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

ایف آئی اے ڈائریکٹر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں آپ کے سر شرم سے جھک جانے چاہیئں، آپ یہاں مزید بحث کر رہے ہیں۔ کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے؟ آپ نے اس عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کی۔

بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت آزادی اظہار رائے پر قدغن برداشت نہیں کرے گی۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ایف آئی اے عوامی نمائندگان کیلئے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہی ہے۔

پوچھا گیا کیا اس کیس میں سیکشن 21 ڈی بنتا ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس کیس میں سیکشن 21 ڈی بالکل نہیں بنتا۔ سیکشن 20 کے خلاف لوگوں کا سیف گارڈ ہونا چاہیے۔ معزز جج نے کہا کہ پاکستان صحافیوں کیلئے دنیا کا 8 واں ترین غیر محفوظ ملک ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ فحاشی بالکل نہیں ہونی چاہیے۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ میرٹ ہے اوپر بات کرنا چاہتے ہیں تو بتائیں یہاں فحاشی کہاں ہے؟ اگر کوئی کسی کتاب کا حوالہ دے رہا ہے تو اس میں کیا فحاشی ہے؟

سب سے بڑی فحاشی اختیارات کا غلط استعمال، آزادئ اظہار رائے پر پابندی اور آئین کا احترام نہ کرنا ہے۔ دوران سماعت لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا کہ وزیر اعظم اس معاملے میں ملاقات کرکے جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا کہہ رہے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جج کی آپ فکر نہ کریں، اسلام آباد ہائی کورٹ کا کوئی جج یا ماتحت جج دھمکایا نہیں جاسکتا۔ پیکا کی جو درخواست ہے وہ آپ سے الگ ہے کیونکہ اس حوالے سے یہاں کیس زیر سماعت ہے۔

پیکا ایکٹ کے حوالے سے اٹارنی جنرل اس عدالت کو مطمئن کریں گے، آپکی حد تک جو درخواست ہے وہ ٹرائل کورٹ دیکھ لے گی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا سے متعلق تمام درخواستیں یکجا کردیں۔ڈائریکٹر ایف آئی اے کو شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا۔ 

Related Posts