موسمیاتی تبدیلی آموں کی قاتل بن گئی، رواں برس بھی پیداوار میں کمی کا سامنا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو پروفٹ پاکستان

آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے رواں سیزن آم کی برآمد کا ہدف ایک لاکھ ٹن مقرر کردی۔ آم کی ایکسپورٹ کا آغاز 20مئی سے ہوگا۔

روایتی منڈیوں کے ساتھ چین، امریکا، ترکیہ، جاپان کی ویلیو ایڈڈ مارکیٹ پر توجہ مرکوز کی جائے گی، ایران، افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستیں بھی آم کی ایکسپورٹ کا ہدف پورا کرنے میں اہم کردار ادا کریں گی۔

آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان میں آم کے باغات پر سنگین اثرات مرتب کررہے ہیں جس سے پیداوار میں نمایاں کمی کا سامنا ہے اور ایکسپورٹ کوالٹی کا آم دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ سال بھی ایکسپورٹ کا ہدف پورا نہ ہوسکا۔

اس سال ایکسپورٹ کا ہدف ایک لاکھ ٹن رکھا گیا ہے جبکہ گزشتہ سال ایکسپورٹ کا ہدف ایک لاکھ پچیس ہزار ٹن تھا تاہم آم کی ایکسپورٹ ایک لاکھ ٹن رہی۔ رواں سیزن ایک لاکھ ٹن ایکسپورٹ سے 90ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوگا۔

وحید احمد نے کہا کہ اس سال افغانستان کے راستے سینٹرل ایشیائی ملکوں اور ایران کی مارکیٹ کو مستحکم کیا جائے گا جبکہ چین کی مارکیٹ جہاں گزشتہ سیزن سے ایکسپورٹ کا آغاز ہوا اس سال والیوم بڑھانے کی بھرپور کوشش کی جائیگی۔

اس کے ساتھ آسٹریلیا، جاپان امریکا جیسی ویلیو ایڈڈ مارکیٹ میں بھی ایکسپورٹ بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ رواں سیزن ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے اشتراک سے ترکی اور مشرق بعید کے ملکوں میں پاکستانی آم کی پروموشن کی جائیگی۔

موسمیاتی تبدیلیوں کیا اثرات آم کی پیداوار کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسلسل تیسرے سال آم کی پیداوار میں کمی کا سامناہے۔

ملک میں 18لاکھ ٹن آم پیدا ہوتا ہے جس میں سے 70فیصد پنجاب، 29فیصد سندھ اور ایک فیصد خیبرپختون خوا میں پیدا ہوتا ہے۔ اس سال موسمیاتی اثرات کی وجہ سے پنجاب کی پیداوار 35سے 40فیصد جبکہ سندھ کی پیداوار 20فیصد تک کم ہے جس سے مجموعی پیداوار 6لاکھ ٹن تک کم رہنے کا خدشہ ہے۔

پنجاب میں موسمیاتی اثرات کی وجہ سے آم کی پیداوار میں 5لاکھ ٹن جبکہ سندھ میں ایک لاکھ ٹن کمی کا سامنا ہے اس طرح مجموعی پیداوار 18لاکھ ٹن کے اوسط کے مقابلے میں 12لاکھ ٹن رہنے کا اندازہ لگایا گیا ہے یہ تخمینہ پیداوار کے آغاز پر لگایا گیا ہے اور سیزن آگے بڑھنے پر اس میں مزید اضافہ کا بھی امکان ہے۔

وحید احمد نے کہا کہ آم سمیت پھلوں کی کاشت اور زرعی شعبہ پر موسمیاتی اثرات ہر سال بڑھ رہے ہیں۔ موسم سرما کا دیر تک رہنا، بارشیں اور ژالہ باری کے بعد اب سخت گرمی کی لہر نے موسم کے ساتھ زرعی بیماریوں کے پیٹرن کو تبدیل کردیا ہے۔

زرعی شعبہ کو موسمیاتی اثرات سے بچانے کے لیے وفاق اور صوبوں کی سطح پر اقدامات کا فقدان ہے، بالخصوص تحقیق کے ذریعے آم سمیت دیگر اہم پھلوں کے باغات کو موسم کی سختیوں کے قابل بنانا اور موسمیاتی اثرات کی و جہ سے بیماریوں سے مزاحمت کی قوت میں کمی کو دور کرنے کے لیے تحقیق پر مبنی حل فوری تلاش کرنے ہوں گے بصورت دیگر آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ خطرے میں پڑی جائیگی۔

Related Posts