استری 2تو سپر ہٹ رہی لیکن، ہارر تھرلر فلم چھوری 2شائقین کو کیوں متاثر نہ کرسکی؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Chhorii 2: A Horror-Thriller That Loses Its Frightful Edge
ONLINE

ہنسی مذاق اور خوف کے لمحات کو بہترین انداز میں جوڑ کر اسٹری 2ے ناظرین کو محظوظ اور خوفزدہ کیا لیکن اس کے برعکس چھوری 2 جو ایک مکمل ہارر تھرلر ہے، اپنے پچھلے حصے کی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکی اور ناظرین کو خاص اثر دینے میں ناکام رہی۔

پہلی چھوری نے خواتین کے جنسی قتل کے موضوع کو انتہائی مہارت سے پیش کیا تھا جبکہ سنسنی خیز سسپنس اور یادگار خوفناک لمحات بھی فراہم کیے لیکن اس سیکوئل میں جس میں نشرت بھروچا کو ساکشی اور سوہا علی خان کو متضاد کردار میں پیش کیا گیا ہے، اس کا مقصد ایک طاقتور سماجی پیغام دینا تھا جس نے اس کے ہارر ہونے کے بنیادی مقصد، خوف پیدا کرنے اور تفریح کو پس پشت ڈال دیا۔

اس بار ساکشی کا مقابلہ صرف پچھلی فلم کی طرح خواتین دشمنی اور توہم پرستی سے نہیں بلکہ ایک ایسے گاؤں سے ہے جو جابرانہ روایات میں جکڑا ہوا ہے جس میں بچیوں کی شادی کا بھی ہولناک عمل شامل ہے جو کہ بدسلوکی اور صدمے کا باعث بنتا ہے۔

گاؤں کی رسومات میں ادی منوش نامی ایک شخصیت ہے جو کہ ایک قدیم اور متعفن شخصیت ہے جو بچیوں سے سیوا اورسمرپن کے نام پر ان کے خون کی قربانی چاہتا ہے۔

افسوسناک طور پر کچھ خواتین جن میں سوہا علی خان کا کردار بھی شامل ہے، ان برائیوں کو طاقت کی لالچ میں سہارا دیتی ہیں۔

یہ فلم ایک پریشان کن سوال اُٹھاتی ہے: کیا ایک پدرشاہی دنیا میں خواتین کے پاس واقعی کوئی اختیار ہوتا ہے، چاہے وہ خود بھی اس نظام میں شریک ہوں؟ حالانکہ یہ موضوع بہت امکانات رکھتا ہے مگر اس کی تکمیل میں کمی نظر آتی ہے اور وہ خوفناک ماحول جو گنے کے کھیتوں اور سایہ دار غاروں کی صورت میں ہونا چاہیے تھا، وہ غائب رہتا ہے۔

 

چھوری 2 کا ماحول و خود ایک کردار بن سکتا تھا، کم استعمال کیا گیا ہے۔ کھیتوں میں خوفناک تعاقب یا تنگ غاروں میں دہشت کے لمحات کے بجائے، خوف پیدا کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔

فلم میں جمپ اسکیئرز کا فقدان ہے اور مافوق الفطرت عناصر جیسے بھٹکی ہوئی عورتیں اور دوسرے دنیا کے مخلوق محض اضافی چیزیں لگتی ہیںنہ کہ ہارر کا اہم حصہ۔

کہانی جلدی ہی متوقع بن جاتی ہے اور ساکشی کی ماں کے طور پر اپنی بیٹی کو بچانے کی شدید خواہش پر زور دیا جاتا ہے، جس کا کردار ہاردیکا شرما نے ادا کیا ہے۔ اس دوران داستی کا کردار جب بچی سے محبت بڑھاتا ہے اور اُسے ماں کہہ کر پکارتا ہے، تو یہ دونوں خواتین کے درمیان ایک دلچسپ مماثلت پیدا ہوتی ہے۔

ان کے انٹرایکشنز، بچی کے ساتھ سوپ شیئر کرنے سے لے کر، ان کے متضاد کہانیاں سنانے تک ساکشی کی طاقتور کہانیاں اور داستی کی چالباز لوک کہانیاں کچھ جذباتی گہرائی فراہم کرتی ہیں، مگر یہ فلم کے سست روی کو نہیں بدل سکتیں۔

ایک منظر اپنی خام شدت کے لیے نمایاں ہے۔ چند لڑکے جو بمشکل سات یا آٹھ سال کے ہیں، ایک کمرے میں گھس کر ایک چھوری کو گھٹیا انداز میں دیکھتے ہیں اور اس کی تذلیل کرتے ہیں۔

ان کا جاہلانہ رویہ اس وقت ظلم بن جاتا ہے جب وہ ایک نوجوان ٹرانسجینڈر ساتھی کو ہراساں کرتے ہیں، جو ان کی پرورش میں جھوٹے مردانہ احساسات کا غماز ہے۔ یہ ایک سرد اور حقیقت پر مبنی لمحہ ہے جو اس بات کی پیش گوئی کرتا ہے کہ یہ لڑکے کب اور کیسے عورتوں کے خلاف تشدد کرنے والے بن سکتے ہیں۔ یہ لمحہ اپنی حقیقت پسندی کے باعث گہرائی سے اثر کرتا ہے، لیکن یہ ایک منفرد نمایاں لمحہ ہے۔

پرفارمنس کے لحاظ سے نشرت بھروچا نے ساکشی کے کردار کو بہت اچھے طریقے سے نبھایا ہے، جو ایک عام اسکول ٹیچر سے ایک جرات مندماں میں تبدیل ہوتی ہے۔

اس کا کردار چھوری 2 کی جذباتی بنیاد ہے، جو اس کی کمزوری اور طاقت دونوں کو اجاگر کرتا ہے۔ سوہا علی خان بدقسمتی سے داستی کے کردار میں کافی حد تک ناکام نظر آئیں۔

ان کی مہارت کے باوجود ان کا کردار اتنی گہرائی سے خالی ہے کہ وہ کوئی بڑا اثر نہیں چھوڑ پاتی۔ گاشمیر مہاجنی، جو ٹی وی اور مراٹھی سینما میں کامیاب ہونے کے بعد ہندی فلموں میں قدم رکھ رہے ہیں، انہیں اتنا کم موقع دیا گیا کہ ان کی موجودگی تقریباً نظر ہی نہیں آتی۔

Related Posts