بامبے ہائی کورٹ نے 2006 میں ہوئے ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکوں کے مقدمے میں اہم فیصلہ سنایا، جس میں تمام 12 مسلمان ملزمان کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر بری کر دیا گیا، ان میں سے پانچ کو سزائے موت اور سات کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف شواہد ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔عدالت نے مقدمے کی تمام بنیادوں اور شواہد کی ناقابلِ اعتماد حیثیت پر روشنی ڈالی، گواہوں کے بیانات میں تضادات، بموں کی نوعیت کا تعین نہ ہونا اور شواہد کی عام طور پر ناقص دستیابی جیسے اہم نکات کی نشاندہی کی گئی۔
رہائی پانے والے افراد نے اپنی زندگی کے تقریباً 18 قیمتی سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزار دیے بغیر ایک دن کی ضمانت یا رہائی کے، ان میں محمد ماجد بھی شامل ہیں جن کی اہلیہ قید کے دوران انتقال کر گئیں جبکہ فیصل اور مزمل نامی بھائیوں کے والدین انصاف کی امید لیے دنیا سے رخصت ہو گئے۔
عدالت کے اس فیصلے پر ملک بھر میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے سخت الفاظ میں نظامِ انصاف پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایسے معاملات میں جہاں عوامی دباؤ ہوتا ہے، پولیس پہلے الزامات عائد کرتی ہے اور ثبوت بعد میں تلاش کیے جاتے ہیں۔
میڈیا اور تفتیشی ایجنسیاں مل کر کسی کو مجرم بنا دیتی ہیں اور جب برسوں بعد وہ بے گناہ ثابت ہوتے ہیں تو ان کی برباد زندگی کا کوئی حساب نہیں لیا جاتا ہے۔
یہ فیصلہ صرف ملزمان کی بے گناہی کو ثابت کرنے کے ساتھ ملک کے انصاف کے نظام پر بھی سوالات اٹھاتا ہے کہ کیا حکومتی ادارے ثبوتوں کی تفصیل جلد ہی تلاش کرسکیں گے؟ کیا اس طرح کے معاملات کو روکنے کے لیے اصلاحات درکار ہیں؟ مستقبل کے لیے یہ فیصلہ ایک سنگین یادداشت کے طور پر کھڑا ہے۔