فن قرآت اور علم موسیقی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فن قرأت یا علم موسیقی اتنے آسان فنون و علوم نہیں ہیں کہ انہیں ایک کالم میں سمیٹنے کا تصور بھی کیا جا سکے۔ بس اتنا ہی کیا جاسکتا ہے کہ آپ کو فن قرأت میں کار گزار علم موسیقی کی ہلکی سی جھلک دکھادی جائے اور یہ سمجھا دیا جائے کہ اس فن کو سننے کے لئے نہ صرف اعلیٰ ذوق کی ضرورت ہے بلکہ موسیقی سے کم از کم ابتدائی درجے کی واقفیت ضروری ہے۔ ورنہ آپ ایک مترنم آواز پر جھوم کر ماشاءاللہ تو کہہ دیں گے لیکن یہ نہیں جان سکیں گے کہ فن کار یا قاری نے دراصل ہنر کیا دکھایا ہے اور اس میں وہ کن کن باریکیوں سے گزرا ہے۔ جو عرض کرنے جا رہے ہیں وہ فقط ایک بہت ہی معمولی سی جھلک ہے۔ اس کے کسی بھی جملے کو کُل سمجھنے کی غلطی نہ کیجئے گا۔

کلام دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک موزوں اور دوسرا غیر موزوں۔ کلام موزوں آسمانی ہو تو وحی الہی ہوتا ہے اور انسانی ہو تو شاعری کہلاتا ہے۔ کلام اللہ کا یہ اعجاز ہے کہ یہ شاعری نہ ہوکر ایک ناقابل احاطہ کلام موزوں ہے۔ اس میں اشعار کی طرح ایک ہی وزن، قافیہ اور ردیف نہیں چلتی کہ ہر آیت دوسری آیات کے اوزان یا قافیے میں ہو۔ اس کی ہر آیت ایک مستقل اعجاز و کمال ہے اور یہ کمال اس حد کو پہنچا ہوا ہے کہ ہر آیت اپنے کمال کی تکمیل کے لئے اگلی یا پچھلی آیت کی مدد کی بھی محتاج نہیں۔ کلام غیر موزوں ہماری روز مرہ کی گپ کو کہتے ہیں جس میں الفاظ کا چناؤ کسی علم یا اصول کے تحت نہیں ہوتا۔ کلام موزوں کی یہ خاصیت ہے کہ یہ موسیقی میں ڈھل سکتا ہے جبکہ کلام غیر موزوں کے لئے اس پہلو سے سوچنا بھی ایک مذاق ہے۔

انسانی گلے میں سات سُر پائے جاتے ہیں اور یہی ساتوں سُر انسان نے آلاتِ موسیقی پر بھی منتقل کر رکھے ہیں۔ سُر ایک حرفی بھی ہوتا ہے اور دو حرفی بھی۔ ہر سُر کی اپنی ٹائمنگ ہوتی ہے۔ بعض سُر ایک سیکنڈ جبکہ بعض سوا یا ڈیڑھ سیکنڈ کے بھی ہوتے ہیں۔ جب گائک یا قاری کسی لفظ کو ادا کر رہا ہوتا ہے تو اس ایک لفظ میں موجود حروف پر اس کے دو یا تین مختلف سُر لگ رہے ہوتے ہیں جو اس لفظ کے زیر و بم کو ایک صوتی خوبصورتی عطاء کرتے ہیں۔

بر صغیر پاک و ہند کی موسیقی 9 راگوں پر کھڑی ہے جن میں سے 5 بنیادی راگ ہیں۔ جس چیز کو ہم اپنے ہاں راگ کہتے ہیں یہ عالم عرب میں “مقام” کہلاتا ہے اور عرب موسیقی بھی 9 مقامات پر کھڑی ہے۔ راگ یا مقام بنیادی طور پر ایک ماحول اور احساس کو بیان کرتا ہے۔ بعض راگ یا مقام دکھ کے احساس کو بیان کرتے ہیں تو بعض خوشی کے احساس کو۔ بعض چیلنج کی کیفیت کو صوتی شکل دیتے ہیں تو بعض غم اور رونے کے احساس کو۔ اسی طرح دیگر انسانی کیفیات بھی ہیں جن کا یہ راگ یا مقامات صوتی اظہار کرتے ہیں۔

فن تجوید وہ فن ہے جس میں قرآن مجید کی سات روایات بھی سکھائی جاتی ہیں لیکن اس فن کا بنیادی کام حرف کی اس کے مخرج سے بالکل ٹھیک ٹھیک ادائیگی کو یقینی بنانا ہے۔ اگر ایک قاری حرف ہی درست ادا نہیں کر سکتا تو سر اور مقام میں وہ جتنا بھی زور لگا دے پٹنے کے لائق ہی رہے گا۔

مصری قرا حضرات نہ صرف فن تجوید پر مکمل گرفت حاصل کرنے کی محنت کرتے ہیں بلکہ موسیقی کے اساتذہ کے ساتھ سالہا سال گھنٹوں گھنٹوں ریاض (مشق) کرکے مقامات یعنی راگ پر بھی عبور حاصل کرتے ہیں۔ ہماری موسیقی میں ہر گیت ایک ہی راگ میں ہوتا ہے، اگر گائیک غلطی سے بھی ایک سے دوسرے راگ پر چلا جائے تو یہ ایک بڑی نالائقی شمار ہوتی ہے لیکن عربی موسیقی اور اس میں بھی خاص طور پر فن قرأت میں ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے راگ یعنی مقام پر جانا بہت ہی بڑا کمال شمار ہوتا ہے۔ یہ کمال اس لحاظ سے ہوتا ہے کہ ایک راگ سے ایک ہی سانس میں دوسرے پر منتقل ہوتے وقت حروف کی چال بگڑنا یقینی ہوتا ہے جسے سالوں کی مشق سے نا ممکن بنانا پڑتا ہے کیونکہ اگر چال بگڑ جائے تو ساری صوتی خوبصورتی تباہ ہو جاتی ہے۔

فن قرأت میں ایک سے دوسرے مقام پر اس لئے جانا پڑ جاتا ہے کہ ایک آیت اگر دکھ کے مفہوم والی ہے اور اگلی آیت خوشی کے مفہوم والی اور قاری دونوں آیات کو ملا کر پڑھنا چاہتا ہے تو یقینی بات ہے کہ اسے دو الگ الگ مقام یعنی راگ استعمال کرنے پڑیں گے۔ اس فن میں شیخ مصطفے اسماعیل سے بڑا ماہر آج تک نہیں دیکھا گیا۔ ان کی جھلک بہت حد تک ان کے شاگرد شیخ احمد نعینع میں دیکھی جا سکتی ہے۔

کسی بھی آیت کے لئے مقام یعنی راگ کا انتخاب کرتے وقت ماہرین یہ دیکھتے ہیں کہ یہ آیت کس موڈ میں ہے؟ مثلاً اگر آیت دکھ اور افسوس کا موضوع لئے ہوئے ہے تو بلا شبہ “مقام صبا” اپلائی ہوگا۔ آپ جب کسی ماہر قاری کو ایسی آیات کی تلاوت کرتے سنیں گے تو اس کی آواز اور لہجے میں آپ کو دکھ اور افسوس واضح محسوس ہوگا۔

اسی طرح اگر آیت یا اوپر تلے کئی آیات ایسی آرہی ہیں جہاں رنج اور غم کی کیفیت ہے تو ماہر قاری اسے بے پناہ غم کی نمائندگی کرنے والا “مقام حجاز” میں پڑھیں گے اور اگر قاری ہوا شیخ عبد الباسط کے درجے کا تو وہ مقام حجاز کو اس بلندی تک پہنچا دے گا کہ آپ کو آواز ہلکے سے گریے کی آمیزش بھی محسوس ہوگی۔ اگر آپ اس کیفیت کو تجرباتی طور پر سمھنا چاہیں تو شیخ عبدالباسط کی پڑھی ہوئی سورہ مریم کی وہ آیات سن لیجئے جہاں حضرت مریم حاملہ ہونے پر انتہائی پریشان ہیں۔

اسی طرح بیشمار آیات ایسی ہیں جن میں خوشخبری دی جا رہی ہے یا کوئی مسرت انگیز موضوع چل رہا ہے، چنانچہ ایسی آیات کی تلاوت کے لئے صاحب قراء “مقام عجم” کا انتخاب کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم مذکورہ بالا تینوں کیفیتوں والی تین آیات کے تراجم پیش کر رہے ہیں۔ جن سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ موضوع کی کیفیت کیا ہے۔ آپ یہی آیات یوٹیوب پر شیخ عبدالباسط کی آواز میں سن لیجئے۔ اس سے آپ کو پوری طرح سمجھ آجائے گا کہ یہ راگ ان آیات پر کیسے اپلائی ہوئے۔اور ان آیات کو کیا صوتی کیفیت عطاء کی۔

1۔ مقام صبا
میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔ اور قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس (ضمیر) کی۔ کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو اکٹھا نہیں کر سکیں گے؟ کیوں نہیں؟ جبکہ ہمیں اس پر بھی قدرت ہے کہ اس کی انگلیوں کے پور پور کو ٹھیک بنا دیں۔ (القیٰمہ: آیت نمبر 1 تا 3)

2۔مقام حجاز
پھر یہ ہوا کہ مریم کو اس بچے کا حمل ٹھہر گیا تو وہ اس کو لے کر لوگوں سے الگ ایک دور مقام پر چلی گئیں۔ پھر زچگی کے درد نے انہیں کھجور کے ایک درخت کے پاس پہنچادیا۔ وہ کہنے لگیں: “کاش میں اس سے قبل مر گئی ہوتی اور مرکر بھولی بسری ہو چکی ہوتی۔”

(مریم: آیت نمبر 22/23)

3۔ مقام عجم
پھر اس جمے ہوئے خون کو لوتھڑا بنادیا، پھر اس لوتھڑے کو ہڈیوں میں تبدیل کردیا، پھر ہڈیوں کو گوشت کا لباس پہنادیا، پھر اسے ایسی اٹھان دی کہ وہ ایک دوسری ہی مخلوق بن کر کھڑا ہو گیا۔ غرض بڑی شان ہے اللہ کی جو سارے کاریگروں سے بڑھ کر کاریگر ہے۔

(مومنون: آیت نمبر 14)

اس پوری صورتحال میں ہم پر جو اصل چیز واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ مطلقا علم موسیقی کی حرمت کی بات کرنے والے ہمارے علماء کا اس علم سے متعلق تصور ہی غلط اور نامکمل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ موسیقی اس فن کو کہتے ہیں جو نصیبو لال یا مائیکل جیکسن کے پیشے کے لئے ہے۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ گانا بھی چونکہ کلام موزوں ہے سو اس پر بھی علم موسیقی اپلائی ہوتا ہے لیکن یہ خیال کہ علم موسیقی بس گانے کے ہی کام آتا ہے نری جہالت اور بکواس ہے۔ کیا یہ مانا جاسکتا ہے کہ چونکہ گلاس شراب پینے کے لئے “بھی” استعمال ہوتا ہے لھذا گلاس کا استعمال حرام ہے؟

Related Posts