حیرت انگیز، فلسطین و اسرائیل کی مشترکہ فلم نے عالمی ایوارڈ جیت لیا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

یہ فلم ایک جذبانی کہانی پر مشتمل ہے، فوٹو سی این این

فلسطینی اور اسرائیلی مشترکہ پیش کش “No Other Land” کو پیر کے روز آسکر تقریب میں بہترین طویل دستاویزی فلم کا ایوارڈ ملا۔
فلم میں مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک فلسطینی کارکن اور ایک اسرائیلی صحافی کے درمیان جذباتی تعلق کی کہانی بیان کی گئی ہے جبکہ دونوں اقوام کے درمیان تنازع جاری ہے۔

العربیہ کی رپورٹ کے مطابق ہالی ووڈ کے ڈولبی تھیٹر میں یہ ایوارڈ فلسطین کے باسل عدرا (پیدائش 1996) اور اسرائیلی صحافی یوفال ابراہم (پیدائش 1995) نے وصول کیا۔

ٹک ٹاکر رجب بٹ کا اداکار فہد مصطفیٰ پر جوابی وار، تنازع کیا ہے؟

فلم میں باسل کو مغربی کنارے کے علاقے مسافر یطا میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں اپنی قوم کی جبری ہجرت کی مزاحمت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ فلم میں اسرائیلی فوجیوں کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ گھروں کو منہدم کر رہے ہیں اور وہاں فوجی تربیت کا علاقہ قائم کرنے کے لیے مقامی آبادی کو بے دخل کر رہے ہیں۔
اس دوران میں عدرا ،،، ابراہم کا دوست بن جاتا ہے تاہم دونوں کے حالات زندگی میں خلیج کے سبب ان کا باہم تعلق مشکل کا شکار ہو جاتا ہے۔

فلم کی کہانی

اس حوالے سے باسل نے بتایا کہ “فلم No Other Land اس سخت حقیقت کی عکاسی کرتی ہے جس کا ہمیں کئی دہائیوں سے سامنا ہے اور ہم ابھی تک اس کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ ہم دنیا پر زور دیتے ہیں کہ وہ فلسطینی عوام پر ظلم اور ان کی نسلی تطہیر روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے”۔

ابراہم کے مطابق “ہم غزہ کی پٹی میں وحشیانہ تباہی دیکھ رہے ہیں جس کو ختم ہو جانا چاہیے اور سات اکتوبر کے وحشیانہ جرم میں اغوا ہونے والے اسرائیلی یرغمالیوں اور اسرائیلیوں کو دیکھ رہے ہیں”۔

ابراہم کا مزید کہنا تھا کہ “میں جب باسل کو دیکھتا ہوں تو اس میں مجھے اپنا بھائی نظر آ تا ہے، مگر ہم برابر نہیں … ہم حکمراں نظام میں رہ رہے ہیں … میں شہری قانون کے تحت آزاد ہوں جب کہ باسل کو فوجی قانون کا سامنا ہے جو اس کی زندگی برباد کر رہا ہے”۔

ابراہم کا کہنا تھا کہ “ایک مختلف طریقہ بھی … نسلی برتری کے بغیر سیاسی حل … دونوں عوام کے قومی حقوق کو یقینی بنانے کے ساتھ … یہاں موجودگی کے دوران میں یہ کہنا نا گزیر ہے کہ اس ملک (امریکا) کی خارجہ پالیسی مذکورہ راستہ بند کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے”۔

ابراہم نے اپنی گفتگو کے اختتام پر پوچھا “مگر کیوں؟…کیا آپ لوگ نہیں دیکھ رہے کہ ہماری زندگی مداخلت سے بھری ہوئی ہے … اور یہ کہ یقینا میری قوم بھی محفوظ رہ سکتی ہے اگر باسل کی قوم واقعتا آزاد اور محفوظ رہے … ایک اور راستہ بھی ہے … اب بھی وقت نہیں گیا”۔

اسرائیلی میڈیا نے بڑی حد تک اس فلم پر گفتگو سے اجتناب برتا ہے البتہ بائیں بازو کے ذرائع ابلاغ میں اس فلم کا تھوڑا بہت ذکر کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے والی اسرائیلی فلموں کو ایوارڈ کی تقریبِ تقسیم سے قبل بڑی حد تک سراہا جاتا تھا۔

القدس یونیورسٹی کی پروفیسر رایا موراج جو سینیما کے شعبے کی ماہر ہیں، کہتی ہیں کہ یہ وقت بہت حساس ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ “تمام لوگ ہی سوگ یا صدمے کی حالت میں ہیں، لہذا کسی بھی دوسرے موضوع سے متعلق کوئی بھی دوسری آواز سننا مشکل ہے”۔

Related Posts